لندن (انٹرنیشنل ڈیسک) ایران اور متحدہ عرب امارات پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے سوڈان میں 14 ماہ سے جاری تنازع میں متحارب فریقوں کو ڈرون فراہم کرکے اقوام متحدہ کی اسلحہ پابندی کی خلاف ورزی کی۔ برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی کے مطابق 12 مارچ کو سوڈانی فوج خرطوم میں سرکاری نشریاتی ادارے کے ہیڈ کوارٹر پر دوبارہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی،جس پر 11 ماہ قبل خانہ جنگی کے آغاز پر آر ایس ایف نے قبضہ کر لیا تھا۔ یہ حملہ ممکنہ طور پر ایرانی ساختہ ڈرون کی مدد سے کیا گیا تھا۔ ڈچ پیس آرگنائیزیشن پی اے ایکس میں ڈرون کے ماہر اور تخفیف اسلحہ منصوبے کے سربراہ ویم زویجن برگ کے مطابق حملوں میں تباہ ہونے والے ڈرون کا ملبہ اور انجن ایران کے تیار کردہ ڈرون موہجر6 سے مماثلت رکھتے ہیں۔ موہجر6 کی لمبائی 6.5 میٹر ہے ۔ وہ 2ہزار کلومیٹر تک پرواز کر سکتا ہے اور گائیڈڈ فری فال گولا بارود کے ساتھ فضائی حملے کر سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ڈرون گائیڈڈ گولا بارود سے لیس ہیں اوراس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انہیں ایران کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا کیوں کہ یہ ہتھیار سوڈان میں تیار نہیں کیے جاتے۔ دوسری جانب رواں سال کے اوائل میں سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہوابازی پر نظر رکھنے والے ماہرین نے ایک سویلین طیارے کا مشاہدہ کیا جو امارات سے آر ایس ایف کو ہتھیار فراہم کرنے جا رہا تھا۔ یہ سفر ابوظبی کے ہوائی اڈے سے شروع ہوا اور سوڈان کی مغربی سرحد سے چند کلومیٹر دور چاڈ کے امدجاراس ہوائی اڈے اور دارفور پر ختم ہوا، جہاں آر ایس ایف کا مضبوط گڑھ موجود ہے۔ جنگ کے آغاز میں شواہد سامنے آئے کہ آر ایس ایف نے تجارتی اجزا سے بنے کواڈ کوپٹر ڈرونز کا استعمال کیا، جو 120 ملی میٹر مارٹر گولے گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ہتھیاروں کے ماہر برائن کاسٹنر کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات نے ایتھوپیا اور یمن جیسے دیگر تنازعات والے علاقوں میں بھی اپنے اتحادیوں کو یہی ڈرون فراہم کیے ہیں۔ ادھر بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سوڈان کی خودمختار کونسل کے نائب صدر کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی بھی فریق کی جانب سے کوئی ہتھیار نہیں ملتا۔ ہتھیار بلیک مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور بلیک مارکیٹ اب سب کی پہنچ میں ہے۔