میدان عرفات میں حجاج کرام کی مغفرت کا اعلان

344

حج سب سے زیادہ مقدس ومتبرک سفر ہے جو قدم قدم پر برکات کو سمیٹنے کا ذریعہ ہے لفظ حج کے معنی اللہ کے گھر کی زیارت کا قصد و ارادہ کرنے کے ہیں۔ امت محمدیہ پر حج 9ہجری میں فرض ہوا رسول اللہؐ نے سیدنا ابوبکر صدیق کو پہلا امیر حج بناکر مکہ روانہ کیا اور 10ہجری کو ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرامؓ نے رسول اکرمؐ کی سربراہی میں حج ادا کیا جسے حجۃ الوداع کھا جاتا ہے حج ایک ایسی عالمگیر عبادت ہے جس کی تاریخ بہت قدیم ہے اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم کو جب بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا تو ارشاد فرمایا اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے اس گھر کی جگہ مقرر کی کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور میرے گھرکو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں، رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف کر دیں۔ اور لوگوں کے لیے حج کا اعلان کر دیں۔ لوگ تمہارے پاس آئیں گے پیادہ پا اور دبلی پتلی اونٹنیوں پر دنیا جہان کے اطراف و اکناف سے۔ جہاں آکر وہ دیکھیں اپنے فوائد اور مقرر دنوں میں اللہ تعالیٰ نے جو جانور ان کو دیے ہیں ان پر اللہ کا نام لیں اس میں سے خود بھی کھائیں اور تنگ دست و محتاج لوگوں کو بھی دیں۔ سورہ حج آیات 26.28۔

حج ابراہیم ؑ کے دور سے شروع ہو گیا تھا مگر رفتہ رفتہ لوگوں نے اس مقدس عبادت میں کئی خرابیاں پیدا کر دی تھیں وہ دوران حج اللہ کی عبادت کے بجائے اپنے آباء و اجداد کے کارنامے بیان کیا کرتے تھے اور اس پر فخر ومباہات کا اظہار کرتے تھے اپنی لڑائیوں کا ذکر کرتے دعاؤں میں صرف اللہ تعالیٰ سے دنیا کی نعمتیں مانگتے۔ شاعروں کی مجلسیں منعقد کرتے ان کی شاعری زن، زر، شباب، وشراب کے گرد گردش کرتی تھی۔ وہ اپنی سخاوت کے جھوٹے قصے بیان کیا کرتے اور سب سے بڑی خرابی یہ کہ وہ بیت اللہ کا برہنہ طواف کرتے ان کی اس برہنگی کو دیکھ کر حیا کی روح لرز جاتی اور غیرت کی پیشانی پر پسینے آجاتے۔ رسول اکرمؐ نے ان تمام برائیوں کا جڑ سے خاتمہ فرمایا۔ 9ہجری حج کی فرضیت کے بعد رسول اکرمؐ نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو اپنی اونٹنی دیکر مکہ روانہ فرمایا کہ وہ یہ اعلان عام کر دیں آج کے بعد مشرکین حد حرم داخل نہیں ہوں گے اور کوئی شخص برہنہ طواف نہیں کرے گا۔

حج کی عبادت آغاز سے لیکر اختتام تک اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی انکساری اور بے شمار برکات وحصول تقویٰ وپرہیز گاری کا ذریعہ ہے آغاز میں حاجی احرام زیب تن کر کے تلبیہ پکارتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی، اپنی حاضری، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اقرار ہے پھر ہر رکن حج کی ادائیگی کے دوران دعائیں ہیں خصوصاً حاجی جب میدان عرفات میں پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کی محفل میں اپنے بندوں کے متعلق فخر کا اظہار کرتے ہوئے فرشتوں سے سوال کرتا ہے کہ میرے یہ دنیا کے مختلف علاقوں سے دور دراز کا سفر کرکے پراگندہ بالوں ولباس کے ساتھ کس لیے آئے فرشتے جواب دیتے ہیں گناہوں کی معافی مانگنے، تجھے راضی کرنے حاضر ہوئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ مجھ سے کیا امید رکھتے ہیں فرشتے جواب دیتے ہیں وہ آپ کی طرف سے اپنے گناہوں کی معافی کے لیے پر امید ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فرشتو تم گواہ رہو میں نے اپنے بندوں کو معاف کر دیا۔ اللہ کے یہ بندے حجاج گناہوں سے پاک صاف ہو کر اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا حاجی اس طرح گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے پہلے دن کا نومولود بچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ حجاج آج اپنی دنیا ودین کے لیے جو بھی مانگیں گے میں ان کو عطا کروں گا۔

حج کی عالمگیر عبادت حاجی کی زندگی پر گھرے اثرات مرتب کرتی ہے وہ اس سفر کے لیے مال خواہشات وقت سفر کی صعوبتوں کی قربانی دیتا ہے جس کے نتیجے میں وہ تقویٰ اور پرہیز گاری کی اعلیٰ منازل طے کرتا ہے دوران سفر وہ حجاز مقدس میں قدم قدم پر صحابہ کرامؓ کے آثار دیکھتا ہے جس سے اس کے ایمان کو جلا اور حرارت ملتی ہے اجتماعی طور پر یہ عبادت شوکت اسلام مسلمین کا اظہار ہے کیا ہی اچھا ہو تمام مسلم حکمران حج کے دوران ایک جگہ جمع ہو کر مسلم امہ کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لیں اور اس کا باوقار حل تلاش کریں۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر