قرضوں کا بجٹ اور آئی ایم ایف کا بھوت

486

یہ بات بڑی مشکل سے ہضم ہوتی ہے کہ دنیا میں کوئی ملک ایسا بھی ہے جہاں امداد، بھیک یا خیرات ملنے پر سرکاری جشن منایا جاتا ہو اور اسے کامیابی قرار دیا جاتا ہو لیکن پاکستانی حکمرانوں نے یہ بات نہ صرف سمجھائی ہے بلکہ بار بار اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔ آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کا نام حکومت سے باہر ہوکر لیا جاتا ہے اور حکومت میں آکر آئی ایم ایف کے در پر سجدہ کرلیتے ہیں۔ نواز شریف، بے نظیر یا پیپلز پارٹی اور عمران خان سب نے ایسا ہی کیا اور اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے، خیر سے بجٹ آ گیا ہے اور منظور بھی ہو ہی جائے گا۔ اس کو پیش کرنے والے کامیاب بجٹ کہہ رہے ہیں، لیکن بجٹ میں جو کچھ آئی ایم ایف کے نام پر کیا جارہا ہے اس سے عوام تباہی کا شکار ہو جائیں گے، پہلے عوام کے نام پر عوام کا استیصال کیا جاتا رہا اور اب آئی ایم ایف کا بھوت عوام کو ڈرانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ حکمرانوں کی یہ بیماری تو عام ہے کہ بجٹ میں چونکہ عوامی آرا اور خواہشات کا خیال نہیں رکھا جاتا اور پارلیمنٹ میں یہ اہتمام کیا جاچکا ہے کہ کوئی عوامی آواز پارلیمنٹ میں نہ پہنچ جائے، لہٰذا جو چاہو کر ڈالو۔ حالیہ بجٹ میں بھی بجٹ بنانے والوں کے مفادات اور اشرافیہ کے فوائد کا خیال رکھا گیا ہے اور سارے ٹیکس اور مسائل عوام کے کھاتے میں رکھے گئے ہیں، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انسٹیٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ملکی اور بیرون ملک اشرافیہ کے ناجائز مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئی ایم ایف کا 24واں پروگرام آخری پروگرام ہوتا لیکن بجٹ تجاویز سے ایسا لگتا ہے کہ چند برسوں کے بعد ہمیں آئی ایم ایف کے 25ویں پروگرام کی طرف جانا پڑے گا۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ حکمرانوں کا اصل مقصد آئی ایم ایف کے قرضے دوست ممالک سے امداد یا دیگر اداروں سے قرضے حاصل کرنا ہے ان کی ادائیگی عوام کو کرنی ہے۔

حکومت نے گزشتہ بجٹ کے مقابلے میں نئے بجٹ کا حجم 15 فی صد بڑھایا ہے۔ اس بجٹ میں حکومت کا سارا زور نان فائلرز کو فائلر بنانے پر ہے بجٹ میں حکومت نے جتنی تنخواہیں بڑھائی ہیں اتنا ہی ٹیکس بڑھا دیا ہے یعنی ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیا۔ ایک اور معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر میاں محمد اکرم نے کہا کہ حکومت نے اپنی آمدن سے 100فی صد زائد بجٹ بنا لیا ہے جس کا مطلب ہے کہ قرضے لینے کے عمل کو جاری رکھا جائے گا اور اقتصادی خود انحصاری کی طرف کوئی قدم نہیں بڑھایا گیا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اضافے سے لگتا ہے کہ ملک میں بھکاریوں کی تعداد بڑھائی جائے گی، لوگوں کو کام پر لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ یہ وہی منصوبہ ہے جس میں ساٹھ فی صد سے زاید رقم کرپشن کی نذر ہوجاتی ہے، لیکن حکومت نے اس میں اضافہ کردیا ہے۔

حکومت کے پیش کردہ بجٹ میں جو کچھ بھی ہے صوبوں کو حصہ دینے کے بعد وفاق کے پاس عوام کی فلاح ترقیاتی کاموں اور کسی چیز کے لیے پیسے نہیں ہوں گے، اس کے لیے مزید چھوٹے بڑے قرضے لیے جاتے ہیں اور مزید لیں گے، پرانے قرضے رول اوور کرائیں گے، اس کے علاوہ اگلے تین سال قرضوں کی واپسی تو دور کی بات ہے قرضوں پر سود ادا کرنے کے پیسے نہیں ہوں گے تو ریلیف کا کام خاک ہوگا، حکومت کو اپنے دعوے کے مطابق ایف بی آر کو پابند کرنا چاہیے کہ وہ 24 ہزار ارب روپے کا ٹیکس وصول کرے، تب ہی حکومت قرض کے چکر سے نکلے گی اور کوئی کام کرسکے گی۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں عوام کہیں نہیں ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہوگا کہ اگلی مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں۔ حکومت ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہتی ہے تو اسے ہر مالدار پر ٹیکس لگانا ہوگا، صوبے زراعت اور زمین پر ٹیکس کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جی ایس ٹی کم کریں تاکہ عام آدمی کو ریلیف ملے، جب بڑے لوگوں سے بڑا ٹیکس لیں گے تو ٹیکس نیٹ اور آمدنی دونوں بڑھیں گے۔ اب سے کوئی بیس سال قبل پٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی میں معمولی اضافہ کیا گیا تھا کہ چونکہ ٹیکس چوری ہورہا ہے اس لیے ہم پی ڈی ایل نافذ کر رہے ہیں، اور یہ چوری بڑے لوگ، طاقتور لوگ اور ادارے کر رہے تھے اور کررہے ہیں، اس ٹیکس چوری کو روکنے کے بجائے ہر حکومت نے اس میں اضافہ کیا اور اب یہ ایک ہزار ارب سے زیادہ ہوگیا ہے۔ یعنی حکومتیں ٹیکس چوروں کے سامنے بے بس ہیں اور بوجھ عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر ملک بچانا اور چلانا ہے تو ٹیکس چوری روکنی ہوگی، برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا، اشرافیہ کے لیے بجٹ بنانا بند کرنا ہوگا، جب تک قوم ان حکمرانوں کا گھیرائو نہیں کرے گی یہ ملک کو یوں ہی بیچتے رہیں گے۔