کار تجدید
دین حق کو جاہلیت کی آمیزشوں سے جدا کر کے اس کی اصلی صورت میں پیش کرنا‘ اس کی بنیادی صداقتوںمیں ردّ و بدل کیے بغیر اس کو ایسی حکمت کے ساتھ پیش کرنا کہ اہل زمانہ کے دل و دماغ اس سے متاثر ہو سکیں، ’’نئی نظر اور نئی قوت‘‘ سے کام لے کر قرآن و سنت سے وقت کے مسائل کا حل تلاش کرنا‘ علمی و عملی اور اخلاقی و روحانی طاقتوں سے جاہلی نظامات کے تسلط کو مٹانے اور اْن کی جگہ اسلامی نظام کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کرنا‘ یہ سب تجدیدی نوعیت ہی کے کام ہیں۔ کوئی شخص یا کوئی گروہ یا کوئی ادارہ خواہ بڑے پیمانے پر یہ کام کرے یا چھوٹے پیمانے پر‘ اور اس سلسلے میں کوئی بڑی خدمت انجام دے جائے یا کچھ تھوڑی سی خدمت انجام دے کر رہ جائے‘ بہرحال اس کا کام تجدیدی کام ہی کہا جائے گا‘ اور ظاہر ہے کہ جو کوئی اس کام کو کرے گا اس میں یہ شعور بھی ہوگا کہ وہ یہ کام کر رہا ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو تجدیدی کام کرے وہ مجدد کے لقب سے بھی ملقّب ہو‘ صدی کا مجدد ہونا تو اس سے بلند تر بات ہے۔ اینٹیں چن کر دیوار بنانا بہرحال ایک تعمیری کام ہے‘ مگر کیا یہ لازم ہے کہ جو چند اینٹیں چن دے وہ ’’انجینیر‘‘ بھی کہلائے‘ اور پھر انجینیر بھی معمولی نہیں بلکہ اپنی صدی کا انجینیر؟ اسی طرح کسی کا اپنے کام کو تجدیدی کام یا تجدیدی کوشش کہنا‘ جبکہ فی الواقع وہ تجدید دین حق ہی کی غرض سے یہ کام کر رہا ہو‘ محض ایک امر واقعہ کا اظہار ہے اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ مجدد ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اور اس صدی کا مجدد بنا چاہتا ہے۔
مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ بعض اسلامی الفاظ کو خواہ مخواہ ہوّا بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ دنیا میں کوئی رومی عظمت کی تجدید کا داعیہ لے کر اٹھتا ہے اور رومیت کے پرستار اس کو مرحبا کہتے ہیں۔ کوئی ویدک تہذیب کی تجدید کا عزم کر کے اٹھتا ہے اور ہندویت کے پرستار اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ کوئی یونانی آرٹ کی تجدید کے ارادہ سے اٹھتا ہے اور آرٹ کے پرستار اس کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ کیا ان سب تجدیدوں کے درمیان صرف ایک خدا کے دین کی تجدید ہی ایسا جرم ہے کہ اس کا نام لیتے ہوئے آدمی شرمائے اور اگر کوئی اس کا خیال ظاہر کر دے تو اللہ کے پرستار اس کے پیچھے تالی پیٹ دیں؟ (اشارات‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ دسمبر 1941ء)
٭…٭…٭
حج اور قربانی
اس میں وقت کی قربانی ہے، مال کی قربانی ہے، آرام و آسایش کی قربانی ہے، بہت سے دنیوی تعلقات کی قربانی ہے، بہت سی نفسانی خواہشوں اور لذتوں کی قربانی ہے… اور یہ سب کچھ اللہ کی خاطر ہے۔ کوئی ذاتی غرض اس میں شامل نہیں۔ پھر اس سفر میں پرہیزگاری و تقویٰ کے ساتھ مسلسل خدا کی یاد اور خدا کی طرف شوق و عشق کی جو کیفیت آدمی پر گزرتی ہے وہ اپنا ایک مستقل نقش دل پر چھوڑ جاتی ہے جس کا اثر برسوں قائم رہتا ہے۔ پھر حرم کی سرزمین میں پہنچ کر قدم قدم پر انسان ان لوگوں کے آثار دیکھتا ہے جنھوں نے اللہ کی بندگی و اطاعت میں اپنا سب کچھ قربان کیا، دنیا بھر سے لڑے، مصیبتیں اْٹھائیں، جلاوطن ہوئے، ظلم پر ظلم سہے، مگر بالآخر اللہ کا کلمہ بلند کر کے چھوڑا اور ہر اس باطل قوت کا سرنیچا کرکے ہی دم لیا جو انسان سے اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرانا چاہتی تھی۔ ان آیاتِ بینات اور ان آثارِ متبرکہ کو دیکھ کر ایک خدا پرست آدمی عزم و ہمت اور جہاد فی سبیل اللہ کا جو سبق لے سکتا ہے، شاید کسی دوسری چیز سے نہیں لے سکتا۔ پھر طوافِ کعبہ سے اس مرکزدین کے ساتھ جو وابستگی ہوتی ہے اور مناسکِ حج میں دوڑ دھوپ، کوچ اور قیام سے مجاہدانہ زندگی کی جو مشق کرائی جاتی ہے، اسے اگر آپ نماز اور روزے اور زکوٰۃ کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو کہ یہ ساری چیزیں کسی بہت بڑے کام کی ٹریننگ ہیں جو اسلام مسلمانوں سے لینا چاہتا ہے۔ اسی لیے ہر اْس مسلمان پر جو کعبہ تک جانے آنے کی قدرت رکھتا ہو، حج لازم کردیا گیا ہے تاکہ جہاں تک ممکن ہو ہر زمانے میں زیادہ سے زیادہ مسلمان ایسے موجود رہیں جو اس پوری ٹریننگ سے گزرچکے ہوں۔ (حقیقت حج سے ماخوذ)