پاکستان میں نظام تعلیم کی یکجائی

620

برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے اسلام 92ہجری میں آیا بلوچستان اور جنوبی خراسان کا وہ علاقہ جو آج پاکستان میں شامل ہے تاریخ بتاتی ہے کہ اس علاقہ میں صحابہ کرام ؓ کی آمد بھی ہوئی صحابہ کرام ؓ کا عرصہ 110ہجری تک ہے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ تابعین اور تبع تابعین کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ برصغیر پاک وہند کا یہ علمی رشتہ عرب اور عراقی دنیا سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن تقریباً 200ہجری کے بعد یہ علمی رشتہ ایران، افغانستان اور سینٹرل ایشاء سے جڑ جاتا ہے جس کے نتیجے میں قرآن وحدیث اور فقہ کے علوم براستہ ایران وافغاستان یہاں آتے رہے لیکن ان علوم کے ساتھ ایران وافغان اور سینٹرل ایشاء کے علوم فارسی ادب، اور یونانی علوم فلسفہ ومنطق بھی برصغیر میں آئے اور انہوں نے عوام کو متاثر کیا۔ ان علوم کے برصغیر کے عوام پر گہرے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔ اس نظام تعلیم کی وجہ سے1200 سال تک مسلمان حکمران رہے حالانکہ یہاں کی 90فی صد آبادی غیر مسلم تھی لیکن مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت اتنا مستحکم تھا کہ اس نے مسلمان حکمرانوں کو تحفظ فراہم کیا۔

محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد پر مسلمانوں کے لیے ایک نصاب تعلیم وتربیت دیا گیا جس میں سب سے پہلی کتاب قرآن مجید کی تدریس کو لازم قرار دیا گیا۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے اپنے ایک مقالے میں تحریر کیا ہے کہ قرآن مجید کے ابتدائی تراجم میں سے ایک سندھی ترجمہ ہے جو اولین زمانہ میں ایک عراقی النسل عالم جو سندھ میں آباد تھا جو بہت سی زبانوں پر عبور رکھتا تھا اس نے سندھی زبان میں ترجمہ کیا جو قرآن مجید کے اولین تراجم میں سے ایک ہے۔ اسی طرح برصغیر پاک وہند میں جب مغلیہ حکومت زوال پذیر تھی تو اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی حفاظت کے لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے خاندان کو اٹھایا جنہوں نے قرآن مجید احادیث اور فقہ پر بڑا کام کیا، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے خاندان کے علمی کام کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں جو نظام تعلیم آخر زمانہ تک چلتا رہا جو اس زمانہ کی تمام ضروریات کو پورا کر رہا تھا وہ اپنے زمانے کا بڑا اپ ڈیٹڈ نظام تعلیم تھا جس کو درس نظامی کہا جاتا ہے۔ جس کو ملا نظام الدینؒ نے ترتیب دیا جس میں 56علوم کی 120 کتب کو شامل کیا گیا جس میں قرآن مجید، احادیث شریف، فقہ، اصول فقہ، عربی ادب، فارسی ادب، فلسفہ، علم الکلام، ریاضی، علم ہندسہ، منطق، فن تعمیرات، قانون، معاشرت، معیشت، سیاسیات، طب، جیومیٹری، علوم تصوّف اور خطاطی وغیرہ سب کو شامل کیا گیا تھا ان علوم میں بچوں کو ابتداً سات سال کی عمر میں لیا جاتا اور 20سال کی عمر تک ان علوم میں گریجویشن کروادی جاتی تھی خود ملا نظام الدینؒ نے ان علوم کو اچھی طرح پڑھا اور سترہ سال کی عمر میں سند ِ فراغت حاصل کی، خود شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ ان میں سے اکثر علوم حاصل کر چکے تھے اور ان کے بارے میں مشہور ہے کہ 14سال کی عمر میں سند ِ فراغت حاصل کی لیکن برصغیر پاک و ہند میں جب مسلمان زوال پذیر تھے تو بہت سے اہل فکر ودانش کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد کیسے اپنے دین اور سلف کے کارناموں کو محفوظ رکھا جائے تو اس دور میں مولانا مملوک علیؒ جو مولانا قاسم نانوتویؒ کے استاد بھی رہ چکے تھے انہوں نے اور مولانا قاسم نانوتویؒ اور بعد ازاں مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ نے درس نظامی میں سے ایران عقلیات اور یونانی منطق کے حصہ کو محدود کر کے اور اس کی جگہ قرآن مجید احادیث اور فقہ واصول فقہ حصہ کو بڑھا کر درس نظامی کا آغاز کیا گیا یہ درس نظامی میں پہلی بڑی تبدیلی تھی بعد ازاں اس نصاب تعلیم سے ریاضی اور دیگر جدید علوم کو بھی نکال دیا گیا اور درس نظامی کو خالص دینی علوم کا محافظ نصاب تعلیم بنا دیا گیا۔ دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی 25,30 سال کے اندر ہی وہاں کے منتظمین کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمارا نصاب تعلیم دین اور سلف کے کارناموں کا رکھوالا تو ہے لیکن یہاں کے فضلا معاشرے میں کچھ مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس وجہ سے کچھ عرصہ بعد ندوۃ العلماء کی بنیاد رکھی گئی جس میں درس نظامی کے نصاب کو ہلکا رکھا گیا اور ساتھ انگریزی اور جدید علوم کو زیادہ مقدار میں رکھا گیا جس کی وجہ سے ندوۃ العلماء میں فارغ ہونے والے فضلا کی صلاحیت ادیب، مصنف اور شاعر کی تو تھی لیکن دینی علوم میں وہ گہرائی پیدا نہ ہو سکی جو دارالعلوم کے فضلا میں ہوتی تھی اگرچہ ندوۃ العلماء سے سید سلمان ندویؒ اور علامہ شبلی نعمانی ؒ تو فارغ ہوئے لیکن ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی ابتدائی تعلیم دیوبند کے مدارس میں ہوئی تھی البتہ ان کی تعلیم کی تکمیل ندوۃ العلماء سے ہوئی ہے۔ ندوۃ لعلماء کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے طرز پر اور بھی کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے یہ سب ادارے وقت کی ضرورت کو پیش رکھ کر قائم ہوئے لیکن دارالعلوم دیوبند اور درس نظامی کے نصاب کے تحت قائم ہونے والے اداروں نے نمایاں مقام حاصل کیا۔

مولانا مودودی ؒ برصغیر کے مسلمانوں کے کردار نظام تعلیم کی وجہ سے بہت متفکر تھے وہ مسلمانوں کے جدید عصری نظام تعلیم اور قدیم درس نظامی کے نظام تعلیم دونوں کو مسلمانوں کے لیے ناکافی تصور کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ چاہتے تھے ان دونوں نظام ہائے تعلیم کو یکسر تبدیل کر دیا جائے اور نیا نظام تعلیم ترتیب دیا جائے جس میں جدید و قدیم دونوں کو معیار بنایا جائے۔ مولانا مودودیؒ نے قیام پاکستان سے پہلے ہی اس پر کام شروع کر دیا تھا اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ نے تین کمیٹیاں بھی تشکیل دیں اور ساتھ جدید اسلامی نظام تعلیم کے لیے ایک خاکہ بھی تجویز کیا کہ ابتداً کون کون سی فیکلٹی کو رکھا جائے گا اور ہر فیکلٹی کی آؤٹ لائن کا تعین بھی کر دیا گیا۔ مثلاً مولانا مودودیؒ نے ایک کمیٹی ان جدید اسلامی اداروں کے قیام کے لیے تجویز کی جس میں غازی عبدالجبارؒ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ، قاضی حمید اللہؒ، اور نعیم صدیقی ؒ کو رکھا گیا۔ دوسری کمیٹی مولانا مودودیؒ نے اپنی سربراہی میں تجویز کی اس کمیٹی کے ذمے یہ تھا کہ وہ اساتذہ کے تقرر کا فریضہ سرانجام دے گی اس کمیٹی میں خود مولانا مودودیؒ، مولانا امین احسن اصلاحی ؒ، غازی عبدالجبار ؒ اور چودھری محمد اکبر ؒ رکھا گیا جبکہ تیسری کمیٹی نصاب سازی کے لیے بنائی گئی جس میں امین احسن اصلاحیؒ، اختر احسن اصلاحیؒ، مسعود عالم ندویؒ اور ابوللیث اصلاحیؒ کو رکھا گیا۔ مولانا مودودیؒ نے ابتدائی طور پر پانچ فیکلٹیوں کے قیام کی تجویز دی جس میں فلسفہ، تاریخ، معاشیات، قانون اور علوم اسلامیہ کی فیکلٹی ہوں گی ان کی تفصیلات تعلیمات کے اندر تفصیل سے دی گئی ہے۔ مولانا مودودیؒ آج کے جدید تعلیمی نظام کو بے خدا نظام تعلیم تصور کرتے تھے مولانا مودودیؒ ان کالجوں اور یونیورسٹیوں کو قتل گاہیں تصور کرتے تھے اور ان میں دی جانے والی اسناد کو مسلمانوں کے لیے ڈیتھ سرٹیفکیٹ تصور کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ بے روح نظام تعلیم ہے دوسری طرف درس نظامی کے تعلیمی نظام کو افادیت سے خالی نظام تعلیم تصور کرتے تھے اور کہتے تھے کہ برصغیر میں جب انگریز آیا تو اس دن ہی یہ نظام تعلیم اپنی افادیت کھو چکا تھا۔ مولانا مودودیؒ کی یہ ساری کوشش قیام پاکستان سے پہلے کی ہیں جماعت اسلامی کی بنیاد 1941ء میں رکھی گئی جبکہ پاکستان 1947ء میں معرض وجود میں آیا۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا مودودیؒ نے اس طرح کے تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے اٹک میں بڑی زمین بھی حاصل کر لی اور اس نظام تعلیم کے لیے بڑے فنڈز بھی جمع کر لیے تھے۔

یہ بہت بڑا سوال ہے کہ مولانا مودودیؒ جیسی قد کاٹھ کی شخصیت بھی آخر اس نظام تعلیم کو کیوں تشکیل نہ دے سکی۔ دراصل 1947ء سے 1971ء تک اتنے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے کہ جس وجہ سے مولانا اس طرح کے تعلیمی ادارے قائم نہ کر سکے مثلاً ایوب خان کے مارشل لا میں جماعت اسلامی پر پابندی لگائی گئی اور جماعت اسلامی کے تمام فنڈز ضبط کر لیے گئے۔ 1953ء تا 1957ء مولانا مودودیؒ کے ساتھ اختلاف کر کے بڑے بڑے رفقاء کار جماعت سے علٰیحدہ ہو گئے۔ خصوصاً 1957ء میں جماعت اسلامی کی سیاسی حکمت عملی پر ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں بہت طویل بحث ہوئی اور بالآخر مولانا مودودیؒ کی سیاسی حکمت عملی کو ارکان نے منظور کر لیا تو ایک مرتبہ پھر جماعت کے اندر سے ایک بڑا طبقہ جماعت سے علٰیحدہ ہو گیا خصوصاً ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم ؒ اور ارشاد حقانی ؒ جیسی شخصیات جماعت سے علٰیحدہ ہو گئیں۔ اس کے بعد پاکستان میں نظام اسلامی کی تحریک میں مولانا مودودیؒ مصروف رہے۔ پھر قادیانیت کی تحریک میں مولانا مودودیؒ کو گرفتار کر دیا گیا اور پھانسی کی سزا دی گئی، پھر ایوب خان کے مارشل لا میں جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دیا گیا۔ اور پھر جب جماعت اسلامی بحال ہوئی تو 1970ء کے الیکشن میں پاکستان کے عوام جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کی طرف متوجہ تھے لیکن 70 کے الیکشن کے بعد بنگلا دیش کی تحریک اور 71کی جنگ اور بنگلا دیش نامنظور کی تحریک نے مولانا مودودیؒ کو الجھائے رکھا۔ دوسری طرف جماعت نے جب سیاسی حکمت عملی کا فیصلہ کر لیا تو اس دن سے آج تک جماعت اسلامی کے 90فی صد وسائل کا بہاؤ سیاسی کامیابی کے حصول کی طرف ہو گیا۔ تیسری طرف جماعت اسلامی کے جو احباب مرکزی مجلس شوریٰ ومرکزی مجلس عاملہ میں منتخب ہو کر آتے رہے وہ مولانا مودودیؒ کی اس تعلیمی پالیسی پر سنجیدگی سے پر غور عوض ہی نہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے جماعت اسلامی کے اندر بھی ایک طرف وہی قاتل درس گاہیں تشکیل پاتی رہیں اور وہی ڈیتھ سرٹیفکیٹ تقسیم کر رہی ہیں اور دوسری طرف دینی مدارس قائم ہوتے رہے اوران کے فضلا معاشرے سے کٹے رہے۔

اب موجودہ حالات میں ہم کیا کر سکتے ہیں جماعت اسلامی میدان عمل میں مصروف ہے۔ الخدمت الحمدللہ کار ہائے نمایاں سرانجام دے رہی ہے، جماعت اسلامی کا ذیلی ادارہ آفاق نصاب سازی اور تعلیمی اداروں کی تنظیم سازی میں مصروف عمل ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی پاکستان کا شعبہ دعوت وتربیت کے تحت شعبہ مساجد ومدارس بھی کام کر رہا ہے، اسی طرح خیبر پختون خوا میں نظم المدارس اور احیاء العلوم فاؤنڈیشن مدارس کی بہتری کے لیے کچھ کام کر رہی ہے، پورے ملک میں مختلف تنظیمیں مدارس کے نظام اور جدید عصری تعلیمی نظام کو یکجا کرنے کے لیے کوشاں ہیں خصوصاً جامعہ الرشید اور بیت القرآن کے ادارے اسی طرح اقراء روضۃ الاطفال بھی ایک سعی کر رہا ہے دیکھیں کون اس سلسلہ میں کامیاب ہوتا اگر چہ حکومت وقت بھی کہہ رہی ہے کہ ہم دونوں نظام ہائے تعلیم کو یکجا کریں گے اور ایک نصاب لائیں گے بہر حال آئیڈیاز بھی بہت ہیں اور کوشش اور کاوشیں بھی بہت ہو رہی ہیں دیکھیں کون سی تنظیم کیا نظام تعلیم نکال کر لاتی ہے اور اس کے فضلا کیا رنگ اختیار کرتے ہیں بہرحال آج ہماری ضرورت یہ ہے کہ ہمارے نظام تعلیم کے فضلا کے اندر عربی، انگلش، کمپیوٹر کی تعلیم کے ساتھ علمی گہرائی اور سیرت و کردار بھی موجود ہو اور اس کے ساتھ افراد محب وطن، محب اسلام اور امت کا درد رکھنے والے ہوں اور وہ اسلام کا صحیح شعور بھی رکھتے ہوں کہ اسلام ایک نظام حیات ہے اور ملک پاکستان جن مقاصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا وہ بھی پورے ہو سکیں، اللہ ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ کچھ مخلص اٹھیں اور یہ عظیم کارنامہ سر انجام دے دیں۔