صحافت بھی صفائی مانگتی ہے

420

بحریہ ٹائون کے بانی ملک ریاض ایک گواہی کے سلسلے میں زیر دبائو بتائے جاتے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ مرجائوں گا مگر یہ کچھ نہ کروں گا، سو اس مرحلہ ٔ جان کنی میں ان کی طرف سے ایک مرتبہ پھر ایک درجن کے قریب اُن نام ور صحافیوں کی فہرست جاری ہوئی ہے جنہوں نے بحریہ ٹائون کے اچھے دور میں اس کے منصوبہ ساز ملک ریاض کی خوب ریاضت کی مدافعت کی اور خوب صلہ نقدی، پلاٹ، بیرون ملک کے دورے کی صورت میں پایا۔ ان صحافیوں کے نام پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ دولت کی چمک کیسے کیسے صحافیوں کی آنکھوں کو خیرہ کرکے خیر و شر کی تمیز سے محروم کردیا۔ یہ نام ور عرف عام میں بھوکے ننگے نہ تھے البتہ تکاثر کا شکار ضرور تھے ورنہ ضمیر اور قلم کی قیمت چند کروڑ روپے نہیں بلکہ خون کا نذرانہ ہوا کرتی ہے کسی نے خوب کہا کہ

جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو دوستوں
قائم رہو حسینؓ کے انکار کی طرح

کیا یہ تحریروں اور تجزیوں میں حالات کے بخیے اکھیڑنے والوں کے دامن خود کرپشن سے تار تار ہیں۔ اس سوال کا جواب وہ عدالت سے ہتک آمیز مقدمہ سے حاصل کرکے اُن ہزاروں قارئین کو جو اُن کے متعلق نیک رائے رکھتے تھے دے سکتے ہیں، بہرحال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ فہرست جو کچھ عرصہ قبل بھی سوشل میڈیا پر چلی تھی اب پھر کیوں اس کی نمائش کی گئی۔ اس کا مقصد جہاں ان پاک پوتر کہلانے والے صحافیوں کی نقاب کشائی ہے وہاں اس نازک مرحلے میں ان کو خاموش رکھنا بھی بتایا جاسکتا ہے کہ خبردار خاموشی برقرار رہے۔ اس فہرست کو مستند بتانے کے لیے باقاعدہ رقم و بذریعہ بینک کے حوالے سے منظر عام پر لایا گیا ہے۔ الحمدللہ اس فہرست میں اُن صحافیوں کے نام ہرگز نہیں جو اللہ کی رضا خاطر قلم کے امین اور سچ و حق کے علم بردار تھے اور ہیں یہ بمشکل گزارہ کرنے والے صحافی نہ بکے اور نہ جھکے۔ صحافت جو عظیم کام ہے کچھ کہتے ہیںکہ جبرائیلؑ بھی صحافت کرتے تھے۔ ربّ کی خبر حضور تک من و عن پہنچایا کرتے تھے اس عظیم رتبے کو داغدار کرنے والے چند کوڑیوں میں بک گئے جو پندو نصائح کے لیکچرز جھاڑتے اور حب الوطنی کا راگ الاپتے تھے اور ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان امروز ہے کہ صحافت ایک عظیم قوت ہے، اس قوت نے اپنے آپ کو منوایا بھی ہے اور اب تو چند سر پھرے صحافی ہی اس کی حفاظت میں سرگرم ہیں۔

صحافت جب قلم و قرطاس کی ہی تھی تو وہ اس جملے کی حامل اور معتبر کہلاتی تھی کہ جو میں بتا رہا ہوں میں نے پڑھا ہے سنا نہیں یعنی سنی سنائی بات پر بدرجہ اولیٰ معتبر تحریر ہوا کرتی تھی اور اب بھی اہل فکر و نظر میں معتبر تحریر ہے جس کا حکم قرآن میں بھی ہے۔ اس تحریر کے اثرات کو کم کرنے کے لیے امریکا نے ایک چال چلی اور پرویز مشرف کی تابعدار حکومت سے پرائیویٹ چینل کھولنے کی اجازت دلوادی یوں پھر بھانت بھانت کے تجزیے، تبصرے اور تفریحات کے حوالے سے بے ہودگیوں کا ایسا گردو غبار اٹھا کہ حقیقت خرافات میں کھو گئی۔ اور ذہنوں میں جھوٹ و الحاد کا زہر گھولا جانے لگا، یہ ضرب کاری تھی جو صحافت پر ماری گئی۔ اب تو بات اور بہت آگے بڑھ گئی۔ ٹچ موبائل فون نے سوشل میڈیا کو جنم دے کر چینل میڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا، اب پی ڈی ایف کی صحافت نے خود ساختہ چینل کا جال پھیلا دیا۔ یوں صحافت جو کمرشل بن چکی تھی اس میں وسعت ہوگئی۔ صحافت میں خرابی کا آغاز اس وقت سے ہی ہو چلا تھا کہ جب کمرشل صحافت کی سوچ رکھنے والے اخبار مالکان نے نمائندگی برائے فروخت کارڈ فیس، اشتہارات کی صورت وصول کرنا شروع کی تھی۔ پہلے تنخواہ کا سوال تو تھا ہی نہیں تو یہ خرافات کا سامان بھی تو نہ تھا۔ جب کمرشل صحافت نے جڑ پکڑی تو یہ جملہ بھی کہا گیا کہ خود بھی خوب کھائو اور ٹفن بھر کر ہمارے لیے بھی لیتے آئو! اب جب کمائو اور کھلائو کا کلیہ ہوا تو وہ لوگ بھی صحافی بن گئے جو کمانے اور اپنے جرائم کو چھپانے کے متلاشی تھے۔ انہوں نے اس سودے کو آسان جانا اور صحافت میں کالی بھیڑوں کی بھیڑ لگ گئی۔ کرمنل افسران نے اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے حرام کی کمائی میں ان کو بھی حصہ دار کرلیا۔ اور یوں کرمنل زمانہ بھر کے صحافت کے قلعے میں محفوظ ہوگئے۔ اور معاف کرنا یہ جرائم پیشہ صحافی منظم بھی ہوگئے تاکہ کوئی ان کے حصہ پتی، کالے کرتوتوں کے معاملے میں ہاتھ چراند نہ کرے۔ یہ صحافت کے لٹیرے ہر اک سے بھتا خوری میں ان پرانے بدنام اداروں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ اور یوں کنگلے آئے اور بنگلے بنالیے۔ اب جسے دیکھو ہاتھ میں لوگو تھامے اور گلے میں کارڈ لٹکا کے صحافی بنا پھرتا ہے، ملک ریاض نے بکائو کے الزام کے ساتھ صحافیوں کی فہرست جاری کرکے ان کی بولتی بند کردی۔ ملک ریاض کے 190 اسٹرلنگ پونڈ نیشنل کرائم ایجنسی برطانیہ نے پکڑے تھے وہ رقم پاکستان کو ملی تو وہ قومی خزانے میں جانے کے بجائے ملک ریاض کے اکائونٹ میں دوباہ پہنچ گئی مگر زبان کھینچ لینے کے خوف سے اکثر کی بولتی جو بک بک کرنے کے عادی ہیں بند ہے۔ اب صحافت بھی دیگر اداروں کی طرح صفائی چاہتی ہے۔ صحافی مالکان پال رہے ہیں، مال بنا رہے ہیں، کوئی حرام حلال کی قلم کے تقدس کی ان کے سامنے بات رکھے تو مال کے پروردہ صحافی کہتے ہیں کس دور کی بات کرتے ہو یہ قصے پرانے ہوگئے اب مال کا کمال ہے۔ ریاست کا اہم ترین ادارہ صحافت بھی غلاظت کا شکار ہوچلا ہے اب بچا کیا ہے۔ قلم بھی بے آبرو بنادیا گیا ہے۔