بھارتی انتخابات کا ایک جائزہ

454

بھارت میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں نریندر مودی اور اس کی اتحادی جماعتیں ایک بار پھر جیت گئی ہیں۔ کانگریس کے انڈیا الائنس نے ماضی کے مقابلے میں بہتر نتائج اپنے حق میں حاصل کیے ہیں۔ بھارت میں مہنگائی، بے روز گاری اور عدم مساوات جیسے موضوع پر کانگریس نے انتخابی مہم چلائی ہے۔ مہنگائی پر سب سے زیادہ اس نے خواتین کو سامنے رکھ کر ایڈریس کیا۔ جن کی تعداد 69 کروڑ ہے اور بھارت کی آبادی میں ہر ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں ایک ہزار نو خواتین ہیں انہوں نے بہت بڑا کردار ادا کیا۔ بھارت میں اس وقت کل آبادی ایک ارب اور بیالیس کروڑ سے زیادہ ہے جن میں نصف سے زیادہ خواتین ہیں۔ ان مہیلائوں نے مودی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ صاف صاف کہتی رہیں کہ گھر میں کھانے کو آٹا نہیں، کسی کے پاس ادویات کے پیسے نہیں، گھر تعمیر کرنا تو مرمت کے لیے رقم نہیں ہے اور نوجوانوں کے لیے روزگار نہیں تم چاند پر جانے اور اگنی جیسے تجربات میں فضول وقت ضائع کر رہے ہو۔ رہی سہی کسر کسانوں نے نکال دی ہے۔ بھارت کے انتخابات میں اس بار کسان کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ کسانوں کے مسائل پر گفتگو کرکے ہی اپوزیشن انڈیا الائنس کی اہم رکن جماعت کانگریس نے ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کی۔

مودی نے وہی پرانا رویہ اختیار کیے رکھا۔ انتخابی جلسوں کے اسٹیج پر رونے تک کی اداکاری کی ووٹ لینے کے لیے اور ہر جلسے میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا حتیٰ کہ انتہاء پسندی کی حد یہ تھی کہ کانگریس کے بارے میں بھی کہا کہ وہ ہندو دھرم کے خلاف جارہی ہے۔ بھارتی آئین کہتا ہے کہ بھارت ایک سیکولر اسٹیٹ ہوگا لیکن مودی نے اپنے ہی ملک کے آئین کے خلاف انتخابی مہم میں انتہاء پسندی کے رحجان کو فروغ دیا۔ بھارت کے مسلمانوں میں ایک بڑی منظم جماعت‘ جماعت اسلامی ہے اس نے بھی انتخابی نتائج کے بعد حالات کا تجزیہ پیش کیا ہے جس طرح مودی نے اپنی انتخابی مہم چلائی اور نتائج حاصل کیے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نفرت اور تقسیم کی سیاست کرتے رہے لیکن انہیں ایودھیا جیسے علاقے میں شکست ہوئی۔ بی جے پی کو فیض آباد میں شکست ہوئی، پنجاب میں منہ کی کھانا پڑی، اسی طرح دیگر متعدد علاقوں میں یہ اپنی جوتیاں چھوڑ کر بھاگی ہے حالیہ انتخابات میں انتخابی مہم کے دوران پروپیگنڈے، نفرت انگیز بیانات، فرقہ وارانہ الفاظ کا استعمال اور ووٹ حاصل کرنے اور ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے طرح طرح کے غیر منصفانہ حربوں اختیار کیے گئے‘ جس سے خدشات پیدا ہوئے بہت ساری تقاریر اخلاقیات سے عاری تھیں، مکمل طور پر پولرائزنگ اور تفرقہ انگیزی پر مبنی تھیں ان سب کے باوجود مودی کو بھارتی عوام نے بری شکست دی یوں سمجھ لیجیے کہ اترپردیش جیسی ریاستوں میں تبدیلی کے لیے فیصلہ کن ووٹ ایک بہت بڑا کھلا پیغام ہے کہ بھارت مودی کی باتوں میں نہیں آیا فرقہ وارانہ تنازعات، مذہبی اختلافات اور ذات پات کی بنیاد پر تقسیم یہاں نظر نہیں آئی بلکہ یہاںجامع ترقی اور سماجی انصاف کے ہامی زیادہ ہیں اتحادی سیاست کا نیا دور یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کا ووٹر وفاق کا ہامی ہے۔

انتخابی نتائج کے بعد بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جارہا ہے کہ حالیہ انتخابات میں بنیادی تبدیلی لانے والے کسان، پسماندہ طبقات اور مذہبی اقلیتیں ہیں۔ اب انہیں کوئی سیاسی پارٹی نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اب وہاں کے مسلمانوں کو یہی امید ہے کہ مودی اب انتہاء پسندی چھوڑ دیں گے مہنگائی، بے روزگاری کو حل کرنے میں دلچسپی لیں گے اور مودی حکومت اس بار ماضی بھول کر مذہبی و ذات پات کی تفریق کے بجائے تمام طبقات اور برادریوں کے لیے مساویانہ رویہ اختیار کرے گی۔ کانگریس نے تو کھل کر کہا ہے کہ عدلیہ کا ایک حصہ اور انٹیلی جنس اس کے خلاف تھیں اور وہ ان کے خلاف بھی الیکشن لڑ کر آئی ہے۔

انتخابی نتائج اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ مودی نے اگر ماضی کو نہ چھوڑا تو بھارت میں جلد ضمنی انتخابات ہوں گے اور ووٹر مودی کو چلتا کریں گے۔ اب ملک میں یک طرفہ قانون سازی نہیں چلے گی اور نہ قانون سازی کسی مخصوص طبقے کے لیے کی جاسکے گی۔ جن کاروباری گروپوں کے کھربوں روپے ڈوب گئے ہیں انہیں اب یہ سب کچھ برداشت کرنا ہوگا اگر مودی نہ بدلے تو پھر آنے والے وقت میں بھارت کا پسماندہ طبقہ ووٹ کی طاقت سے امبانیوں‘ اڈوانیوں کو بہا لے جائے گا۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے حالیہ انتخابات پر نہایت جامع تجزیہ دیا ہے کہ ’’ہندوستان کے لوگ فرقہ وارانہ تنازعات، مذہبی اختلافات اور ذات پات کی بنیاد پر تقسیم میں دلچسپی نہیں رکھتے نئی حکومت عوام کے حقیقی مسائل جیسے معاشی سست روی، مہنگائی، بے روزگاری کو حل کرنے میں بھرپور دلچسپی لے گی اور مذہبی و ذات پات کی تفریق کے بجائے تمام طبقات اور برادریوں کے لیے مساویانہ رویہ اختیار کرے گی۔ حکومت کا رویہ جامع اور عوامی مفاد میں ہونا چاہیے‘‘۔