ریاست کا انتخاب اور حکمرانوں کی سڑانڈ

479

کچھ عشرے قبل کی بات ہے مچھلی سمندر کی ہوتی تھی یا دریائی اور دریائی مچھلی کا ذائقہ سمندر کی مچھلی سے کہیں بڑھ کر ہوا کرتا تھا اور دریائے سندھ کی پلا مچھلی کی بات ہی کیا تھی کہ جو کھاتا وہ انگلیاں چاٹتا۔ کہتے ہیں بلکہ چشم دید ملاح بتاتے ہیں کہ پلا مچھلی دریا کے سیل رواں میں نہیں بہتی ہے بلکہ پانی کے بہائو کے مخالف تیرتی ہے اور شوریدہ لہروں کے خلاف مزاحمت کا کردار اپناتی ہے۔ یہی سعی اس کا منفرد ذائقہ پیدا کرتی ہے۔ اب دریا سندھ ہی پیاسا ہوگیا ہے تو تالابوں اور جوہڑوں میں مچھلی پالنے کا کاروبار عروج پر ہے۔ پلا مچھلی تو اب ایک مخصوص طبقہ اعلیٰ کی ڈش ہو کر رہ گئی ہے۔ سیانے مچھلی اور ملکی سربراہ کو ایک جیسے کردار کا حامل قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مچھلی کا سر اور ملک کے سربراہ میں عجیب مماثلت ہوتی ہے، مچھلی سر سے سڑتی ہے اور سڑانڈ دم تک جاتی ہے۔ یوں ہی ملک کے سربراہ میں خرابی آتی ہے وہ نیچے تک رائج ہوجاتی ہے، مچھلی کے کن پڑے سیاہ ہونے لگتے ہیں تو خبر دیتے ہیں کہ خرابی کا آغاز ہوچلا ہے۔ سنبھالی لو، یوں ہی حکمران وقت کی نیت میں رولا آتا ہے تو خرابیوں کی خبر ملتی ہے۔

احادیث بتاتی ہیں کہ جنت میں پہلی تواضع مچھلی کی کلیجی سے ہوگی، مچھلی پانی سے دور ہوئی تو پھر سڑانڈ کرتی ہے، یوں ہی حکمران شریعت سے دور ہوتا ہے تو مملکت میں شر پنپنے لگتا ہے۔ اب جب مچھلی تالابوں اور جوہڑوں میں پانی جانے لگی ہے تو حکمران بھی گملوں میں پروان چڑھائے جانے لگے ہیں جیسے تالاب کی مچھلی میں ایک بے ذائقہ خوراک ہوتی ہے یہ گملوں کے پالے حکمران بھی نفس کے پجاری اور آقا کے غلام ہوتے ہیں۔ جب یہ حکمران بھی ذرا مربیوں سے دوری اختیار کرتے ہیں تو مچھلی کی طرح ان کو نکالا دے دیا جاتا ہے اور فریز میں محفوظ کرکے پھر فارمی مرغیوں کو جس طرح سڑی مچھلی کھلا کر وہ فارمی مرغی عوام کی خوراک بنادی جاتی ہے یوں ہی یہ سڑے حکمران عندالضرورت قوم کے لیے قابل قبول بنائے جارہے ہیں اور مطلب برآوری کی جارہی ہے۔

پاکستانی حکمران اور مچھلی کا معاملہ ملتا جلتا ہے، قائداعظم، لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، معراج خالد، ذوالفقار علی بھٹو، ضیا الحق کا دور بھی ایسا گزرا کہ ان کے دامن پر کرپشن کا داغ نہ تھا اور لوٹ کا بازار گرم نہ تھا مگر پھر جب ٹین پرسنٹ کا فارمولا حکمران وقت نے پروان چڑھایا اور یہ لازمی قرار پایا تو سربراہ کی سڑانڈ اوپر کی سطح پر اور بدبو و خرابی دم کی طرف بڑھنے لگی اور یہ کلیہ بھی دیکھنے کو ملا کہ جو بادشاہ وقت کا مذہب ہوتا ہے وہی معاشرے کا چلن ہوتا ہے۔ اب رشوت کی بدبو ہر طرف ہے بلکہ ایک حق کی صورت چین بن گئی ہے اہم کمائی کی پوسٹ کی پگڑی اور ماہانہ کرایہ (بھتہ) وصول کیا جاتا ہے، پہلے اہم عہدے پر پوسٹنگ سفارش اور مٹھائی پر ہوا کرتی تھی اور اب ماہانہ کرایہ بھی وصول کیا جاتا ہے اور پھران تینوں کابل عوام سے کھلے ڈھلے وصول کیا جارہا ہے۔ اعلیٰ افسر سے لے کر نائب قاصد تک سب مل جل کر متعین شدہ رقم بٹورتے ہیں، پہلے تھانے بکا کرتے تھے اب ہر محکمہ فروخت ہورہا ہے حد تو یہ ہے کہ رشوت ستانی کی روک تھام کا محکمہ خود رشوت ادائیگی کا سزاوار ہوچکا ہے اس سلسلے میں گھر کی گواہی محکمہ انسداد رشوت ستانی المعروف اینٹی کرپشن کے سابق چیئرمین فرحت جونیجو نے یوں میڈیا پر بیان کی ہے کہ ہر ماہ 7 کروڑ روپے رشوت لی جاتی ہے، ہر ڈائریکٹر سے 15-15 لاکھ روپے وصول کیے جاتے ہیں ایک پرائیویٹ فرنٹ مین یہ محکمہ چلاتا ہے۔ اس گواہی کے بعد تو بات مک گئی۔ جب باڑھ ہی کو کیڑا چاٹنے لگے تو باقی بچتا کیا ہے یہ بھتے کا کیڑا پہلے محکمہ انسداد رشوت ستانی کا لقمہ ہوا کرتا تھا مگر اتنا منظم انداز ہر گز نہ تھا کہ ہر ماہ کا بھتہ دو اور حصہ لو۔ مچھلی کی طرح نظام مملکت سر سے دم تک سڑ گیا ہے، ملک کے ناخدا ان سڑے حکمرانوں کو برف میں فریز کرکے ملک اور قوم کے اوپر مسلط کرکے اصلاح احوال کی تدابیر ان بے ضمیر لیڈروںکو سمجھے ہوئے ہیں۔

رشوت ستانی نے ملک کو جہنم بنادیا ہے۔ سربراہ سے لے کر چپڑاسی تک سڑانڈ زدہ ہوگیا اور تو اور دنیاوی سربراہوں کے ساتھ مسلکی سربراہوں کے چلن بھی شرمندہ کررہے ہیں۔ رسول اللہؐ کی میراث کے دعویدار اب میراثی ہوگئے، اب چندہ ان کا دھندہ ہے۔ انہوں نے بھی اسلام کے نام پر مدارس کے حوالے سے کارندے تنخواہ، حصہ پر مقرر کررکھے ہیں جو جھوٹی سچی اسناد کے ساتھ مساجد میں کھڑے ہو کر جھوٹ بولتے ہیں اور چندہ بٹورتے ہیں، کبھی وہ دور بھی تھا کہ چور، ڈاکو کو پولیس بری طرح تشدد کا نشانہ بناکر سمجھتی کہ وہ مسجد میں چل کر کہہ دیں کہ میں نے وہ یا یہ واردات نہیں کی تو چھوڑ دیں گے، وہ چور، ڈاکو کہتا تھا کہ مجھے جان سے ماردو میں اللہ کے گھرمیں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اب دینی حلیہ و شعار اور رسید کے ہتھیار سے خوب مال بٹورتے ہیں اور یوں مسلکی جبہ و قبہ والے سیاست کی چادر کے حصول کے لیے کرائے پر بھی دستیاب ہیں۔ یہ دین اسلام کو بیچتے ہیں ان کی زندگی نہ اسلام سے میل کھاتی ہے نہ ہی ان کا کردار شریعت کے تقاضے پورا کرتا ہے کہ یہ سادہ لوح بندے کدھر جائیں کہ درویشی بھی عیاری سلطانی بھی عیاری، مگر ہرگز ایسا بھی نہیںکہ چراغ راہ نہیں ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ قیامت تک ایک گروہ جو حق و سچ پر ہوگا دعوت الی الحق دیتا رہے گا۔ یہ گروہ اب بھی موجود ہے جو ولاتفرقو، پر عمل پیرا ہے۔ فرقہ پرستی کا شکار نہیں جو مسلک کی دکانداری کا چورن بیچ کر بھیڑ کو جمع کررہا ہو وہ چکر دینے اور تسبیح و تہلیل میں ہی دین، نہیں قرار دیتا جس نے بلدیہ کراچی، بلدیہ ٹنڈوآدم کی حکمرانی کی جس کی معطر خوشبو آج بھی فضا میں موجود ہے اور دشمن تک اس کے معترف ہیں وہ گروہ جماعت اسلامی کا ہے جو اس گئے گزرے دور میں بسا غنیمت ہے، اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی دکھ درد کا ساتھی ہے اور مسلم جسد واحد کی عملی تفسیر بھی ہے۔ جس کے ایک ہاتھ میں قرآن ہے تو دوسرے ہاتھ میں تلوار ہے جو قول و کردار کا دھنی ہے، اور کفر کے لیے للکار ہے۔