پاکستان ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہو گیا ہے اس مقصد کے لیے رائے شماری عالمی ادارے کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس میں ہوئی، پاکستان کی غیر مستقل رکنیت کے حق میں بھارت سمیت 182 ممالک نے رائے دی۔ اس انتخاب کے بعد پاکستان کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت کا اعزاز آٹھویں بار ملا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ قبل ازیں پاکستان اس نشست پر سات بار منتخب ہو چکا ہے جب کہ اس بار پاکستان کے ساتھ منتخب ہونے والے دیگر خطوں کے ممالک میں سے پانامہ پانچ بار، ڈنمارک چار، یونان دو اور صومالیہ ایک بار سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن رہ چکا ہے اس طرح پاکستان کو آٹھویں بار یہ اعزاز ملنا ایک ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حالیہ انتخاب کے نتیجے میں پاکستان یکم جنوری 2025 ء سے 31 دسمبر 2026ء تک عالمی ادارے کا رکن رہے گا۔ سلامتی کونسل 15 ممالک پر مشتمل ہے جن میں پانچ مستقل ارکان اور 10 غیر مستقل ارکان شامل ہیں۔ جنرل اسمبلی 10 غیر مستقل ارکان کو دو سال کی مدت کے لیے منتخب کرتی ہے جس میں علاقائی جغرافیائی تقسیم کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک شامل ہیں۔ امیدوار ملکوں کو دو تہائی اکثریت، یا منتخب ہونے کے لیے 128 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہونے کے بعد جو ترجیحات ہوں گی ان میں جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے فروغ، فلسطین اور کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کا حصول، افغانستان میں حالات معمول پر لانے کی کوششیں، فریضہ میں سیکورٹی چیلنجوں کا منصفانہ حل اور اقوام متحدہ کے امن مشنز کی کارکردگی کو بڑھانا شامل ہے۔ پاکستان سے پہلے ایشیا پیسیفک گروپ کی سیٹ جاپان کے پاس تھی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن کے طور پر انتخاب پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ اقوام متحدہ و سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہونا امن اور سلامتی کے لیے جاری قوم کے عزم کا ثبوت ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہم عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ ہم اقوام عالم کے درمیان امن، استحکام اور تعاون کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
وزیر اعظم سمیت پوری قوم کا سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت آٹھویں بار ملنے پر اظہار مسرت اپنی جگہ بجا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس انتخاب کے بعد عالمی امن و سلامتی کے فروغ میں پاکستان کا کردار کیاہو گا جیسا کہ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اپنے پیغام مسرت میں دعویٰ کیا ہے۔ خود اقوام متحدہ کی گزشتہ پون صدی سے زائد کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ادارہ اپنے قیام کے اعلان کردہ مقاصد کے حصول میں قطعی ناکام رہا ہے اور عملاً اس کا کردار اس پورے عرصہ میں بڑی طاقتوں کی غلامی اور ان کے مقاصد کی تکمیل کے علاوہ کچھ نہیں رہا، جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے وہ اقوام متحدہ کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور جہاں ان کی ضرورت نہیں ہوتی یا عالمی رائے عامہ ان طاقت ور ممالک کی خواہشات سے میل نہیں کھاتی وہ اس رائے عامہ یا اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو پر کاہ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، جس کی پاکستان اور اس خطے کے حوالے سے اس ادارے کی کشمیر کے مظلوم عوام کو حق خود ارادیت دلوانے کے لیے منظور کی گئی قرار دادیں نمایاں مثال ہیں جو آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا حصہ تو ضرور ہیں مگر پون صدی سے زائد مدت گزر جانے کے باوجود ان پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آ سکی اور اب بھارت جیسا خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے والا ملک ان قراردادوں کو سرے سے تسلیم کرنے ہی سے انکاری ہے مگر اقوام متحدہ اس کی صریح وعدہ خلافی کے باوجود بھارت کو نہ تو ان قراردادوں پر عملدرآمد پر مجبور کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کا بال بیکا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے… اسرائیل اور دیگر بہت سے ممالک کا معاملہ بھی بھارت سے مختلف نہیں جو اقوام متحدہ اور اس کے فیصلوں اور قرار دادوں وغیرہ کو ردی کی ٹوکری کی زینت بنانے میں دیر نہیں لگاتے…!
جہاں تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا تعلق ہے جسے اس کا موثر ترین ادارہ تصور کیا جاتا ہے تو اس کی ہیئت ترکیبی شرمناک حد تک عدل و انصاف کے اصولوں کے منافی ہے کہنے کو تو سلامتی کونسل کے پندرہ ارکان ہیں مگر عملاً اس کے پانچ مستقل ارکان کو یکطرفہ طور پر تمام اختیارات حاصل ہیں اور باقی دس ارکان مکمل طور پر بے بس اور بے اختیار ہیں اور شو پیس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں… پانچ مستقل ارکان کو حاصل ’’ویٹو‘‘ کے حق نے پوری سلامتی کونسل کو ان پانچ ارکان کی مرضی، منشا اور خواہشات کے تابع مہمل بنا کر رکھ دیا ہے کہ ان میں سے ہر کوئی جس مسئلہ میں جب چاہے ’ویٹو‘ کا حق استعمال کر کے باقی چودہ ارکان کی رائے کو صفر کر سکتا ہے اور یہ محض مفروضہ نہیں بلکہ پانچ مستقل ارکان بارہا ’ویٹو‘ کا یہ حق استعمال کر کے پورے ادارے بلکہ پوری دنیا کی رائے اور مرضی کے برعکس اپنی تنہا رائے کا غالب ہونا ثابت کر چکے ہیں جس کی تازہ ترین مثال غزہ میں اسرائیل کی حالیہ جارحیت اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کا گزشتہ آٹھ ماہ سے جاری سلسلہ ہے، پوری دنیا کی رائے عامہ اس معاملہ میں ایک طرف ہے اور اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ و برطانیہ وغیرہ کی ڈھٹائی دوسری طرف… امریکہ بار بار سلامتی کونسل میں ’ویٹو‘ کا حق استعمال کر کے خطہ میں جنگ بندی اور امن کی قرار دادوں کو مسترد کر چکا ہے ان حالات میں پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی جانب سے پاکستان کے سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہونے پر اظہار مسرت کے پیغام اور اس انتخاب کو پاکستانی قوم کے امن و سلامتی کے لیے عزم کا ثبوت قرار دینا محض ایک خوش فہمی اور روایتی بیان تو قرار دیا جا سکتا ہے ورنہ اس انتخاب کا عملاً دنیا میں امن کے قیام کی کوشش سے قطعی کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس کے نتیجے میں وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی خواہش کے باوجود اقوام عالم کے درمیان امن، استحکام اور تعاون کے فروغ میں پاکستان کے کردار میں کوئی قابل ذکر فرق واقع ہو گا اگر ایسا ممکن ہوتا تو بھارت جیسا ہمارا ازلی دشمن کبھی اس رکنیت کے لیے ہمارے حق میں اپنی رائے استعمال نہ کرتا۔ سلامتی کونسل کی غیر عادلانہ، غیر منصفانہ، غیر نمائندہ، غیر مساویانہ اور سراسر یکطرفہ تشکیل کا اس سے نمایاں ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ دنیاکی دو ارب مسلمان آبادی کی اس کونسل کے با اختیار مستقل ارکان میں قطعی کوئی نمائندگی موجود نہیں اور آج تک کبھی کسی مرحلہ پر کونسل کی اس غیر نمائندہ حیثیت کو ختم کرنے کا کوئی احساس تک بھی کسی جانب سے ظاہر نہیں کیا گیا… وزیر اعظم کی نیک تمنائیںاور خواہشات اپنی جگہ مگر پاکستان اب تک سات بار کونسل کا غیر مستقل رکن رہ چکا ہے، سوال یہ ہے کہ اس بار بار کے انتخاب کے دوران پاکستان اپنی شہ رگ کو دشمن کے قبضہ سے چھڑوانے، اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کو بھارتی چنگل سے آزادی دلانے یا ان کا حق خود ارادیت دلوانے اور کشمیر میں استصواب رائے کروانے میں کس قدر پیش رفت اقوام متحدہ یا اس کی سلامتی کونسل کے ذریعے کروا سکا ہے یا وزیر اعظم سمیت کوئی حکومتی نمائندہ قوم کو یہ بتلا اور سمجھا سکتا ہے کہ آٹھویں بار غیر مستقل رکنیت حاصل کر لینے کے بعد پاکستان اپنے مظلوم، مجبور اور محصور فلسطینی بھائیوں کی نسل کشی اور اسرائیلی ظلم و ستم بند کروانے میں پہلے کے مقابلے میں کیا موثر کردار ادا کر سکے گا…؟؟؟