دہشت گردی کے خاتمے کی امریکی جنگ میں شمولیت کے بعد فوج، پولیس اور اس کے متعلقہ تمام اداروں کے اہلکاروں کے پاس ایسے اختیارات آگئے ہیں جس نے شہری آزادیوں کے حق کو سلب کرلیا ہے۔ اس کی مثال آزاد کشمیر میں بجلی کے بلوں میں اضافے کے خلاف عوامی تحریک کے پس منظر میں ایک شاعر کی جبری گم شدگی ہے۔ اس عرصے میں پولیس اور متعلقہ اداروں کو اسلحہ، گاڑیوں اور نگرانی کے آلات کی خریداری کے لیے اربوں روپے کے فنڈ بھی دیے گئے ہیں۔ شہروں میں ہر جگہ کیمرے لگانے کے لیے سیف سٹی کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ لیکن ان تمام اختیارات کے باوجود حکومت امن قائم کرنے میں ناکام ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ’’اسٹریٹ کرائم‘‘ میں بھی سب سے آگے ہے۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائم کم از کم دو عشروں سے تسلسل سے جاری ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر میں ڈاکو راج رائم ہے۔ ڈکیتی، لوٹ مار اور قتل کے حوالے سے صورت حال اتنی سنگین ہوگئی ہے کہ تاجروں اور صنعت کاروں نے بھی حکومت کو تحریک چلانے کا انتباہ کیا ہے۔ کراچی کے سات صنعتی زون کے نمائندوں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 72 گھنٹے میں ڈکیتی کے دوران میں قتل ہونے والے شہریوں کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا گیا تو احتجاج، دھرنا اور ہڑتال کریں گے۔ حالیہ چند دنوں میں ایک صنعت کار آصف بلوانی، ایک گولڈ میڈلسٹ ہونہار طالب علم اتقا معین سمیت 78 شہری قتل کردیے گئے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے شہر میں ڈاکو راج کے خلاف وزیراعلیٰ ہائوس کے گھیرائو کا اعلان کیا ہے، کراچی میں سیف سٹی پروجیکٹ کے نام ساڑھے 4 ارب روپے خرچ کردیے گئے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک مہینے میں 30 ہزار سے زیادہ رہزنی کی وارداتیں ہوئیں، پانچ ماہ میں 80 سے زائد شہری ڈکیتی کے دوران میں قتل کردیے گئے۔ سندھ پولیس کے سربراہ یہ عذر لنگ پیش کرتے ہیں کہ کراچی سے زیادہ جرائم تہران، دہلی اور ڈھاکا میں ہوتے ہیں، اس تبصرے سے حکمرانوں کی سفاکانہ طبیعت کا پردہ چاک ہوتا ہے۔ آخر غیر معمولی اختیارات حاصل کرنے والی پولیس ڈاکوئوں کے جال کو توڑنے میں ناکام ہے۔