عدلیہ کی کالی بھیڑیں، صحافت کے زرد رنگ اور صِبغَتْ اللہ

456

اخباری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے عدلیہ میں موجود چند ججوں کو کالی بھیڑوں سے تشبیہ دی ہے جب کہ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہم کالی بھیڑیں نہیں بھڑیں ہیں۔ اردو میں کالی بھیڑ یا انگریزی میں ’’بلیک شیپ‘‘ کسی کو کہنا، شخصیت کے حوالے سے بہت غلط تاثر دیتا ہے اور اسے منفی معنوں میں دیکھا جاتا ہے۔ اون حاصل کرنے کے لیے پالی جانے والی بھیڑوں میں اگر کوئی ’’کالی بھیڑ‘‘ پیدا ہوجاتی ہے تو بظاہر وہ بھیڑ مفید نہیں، اس کا اون فائدہ مند نہیں کیوں کہ اسے سفید اون کی طرح رنگا نہیں جا سکتا۔ قدرت نے ہر شے کو کسی خاصیت اور کائنات کی کسی ضرورت کے لیے خَلق کیا ہے۔ انسان بسا اوقات آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور میں اپنی ہی مادی ترقی کے مظاہر دیکھ کر خود حیران رہ جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ضروری نہیں کہ انسان اپنے محدود علم سے کائنات میں ہر خَلق کی قدرت کی وَدِیعَت کردہ خاصیت، وجہ یا ضرورت سے بھی آگاہ ہو۔ انسان مستقل اور مسلسل تحقیق سے کبھی اپنے ہی مشاہدات کی روشنی میں نئے نتائج مرتب کرتا اور سابقہ نتائج کو مسترد کرتا چلا آرہا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے، اس لیے یہ بھی عجب اتفاق ہوگا کہ آئندہ کالی بھیڑ کہنے کا مثبت معنوں میں رواج ہو جائے، خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔

اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خْوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا

اگر بھیڑ کے کالے رنگ سے صَرفِ نَظَر کیا جائے تو بھیڑ چال سے بھی ہر خاص و عام واقف ہے، اسی طرح سے بِھڑ کی بھی اقسام اور خصائص ہیں، دیکھا جائے تو مَوضْوعِ سْخَن شے نہیں بلکہ رنگ ہے۔ اسی طرح سے صحافت کے بھی رنگ ہوتے ہیں اور صحافت کا جو رنگ ہمارے ہاں نمایاں ہے وہ زرد صحافت ہے، ویسے یہ اصطلاح یعنی ’’یلو جرنلزم‘‘ ہے تو امریکا کی ایجاد ہے لیکن شاید امریکیوں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ زرد صحافت کا استعمال پاکستان میں ایک وقت میں اتنے وسیع پیمانے پر ہوگا۔ خبر کو ضرورت سے زیادہ سنسنی خیز بنانا، دْشنام طَرازی، ابن الوقت صحافیوں کا چند ٹکوں اور معیار زندگی بلند کرنے کے عوض اپنے نظریات اور اپنی شخصیت کو مختلف سیاسی جماعتوں کو فروخت کردینے سے صحافت کا زرد رنگ بھی ایسے ماند پڑا ہے کہ اب اسے سیاہ صحافت کا نام دینا زیادہ مناسب ہے۔

یہ دنیا رنگ برنگ ہے، رنگوں کے انسانی ذہن اور نفسیات پر مختلف اثرات ہوتے ہیں، ان ہی رنگوں سے قدرت نے پھول مزین کیے ہیں، ان رنگوں کی حقیقت کو دیکھنا ہو تو کبھی رنگ برنگے پھولوں میں خود کو گْم کر کے دیکھیں دنیا کتنی خوبصورت ہے، ایسے ہی پھلوں کی دنیا میں چلے جائیں کتنے رنگوں کے پھل ملتے ہیں، جن میں ذائقہ کے ساتھ مہک بھی ہوتی ہے، اگر خوشبو بکھیرتے پھول، پھلوں کے ذائقے اور خوشنما رنگ اور مہک کی بات کی جائے تو یہ سب امتزاج ایک سرشاری کی کیفیت سے دو چار کر دے گا۔ یہ کہاوت تو بہت مشہور ہے کہ ’’خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‘‘ کہتے ہیں اگر ایک خربوزہ کھیت میں پک جائے تو اس کی خوشبو سے دوسرے بھی پک جاتے ہیں، عموماً یہ محاورہ ان مواقع کے لیے استعمال ہوتا ہے جہاں ایک اچھے کردار کا حامل برائی کی طرف مائل ہو جائے، کوئی شخص اتفاقًا یا بوجہ کسی بری صحبت یا برے ماحول سے متعارف ہوتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ اسی ماحول کا خوگر ہو جاتا ہے۔ اپنے اطراف میں بیک وقت ہم بہت ساری مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ بڑھتے جرائم، منشیات کا پھیلتا وسیع دائرہ، سوشل میڈیا، ٹیلی وژن، فلم اور ڈرامے کے ذریعے فیشن اور بے راہ روی کے رنگ میں رنگنے کے نتیجے میں معاشرے میں لگی آگ کی حِدَّت سے ایک بڑا طبقہ متاثر ہے۔

اس سب سے ہٹ کر ایک رنگ اور بھی ہے جس کا قرآن مجید میں ذکر کیا گیا اور وہ ہے صِبغَتْ اللہ، اللہ کا رنگ یعنی رنگ ِ بندگی۔ سورہ بقرہ آیت 138 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’کہو اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا؟ اور ہم اس کی بندگی کرنے والے لوگ ہیں‘‘۔ مفسرین نے اس آیت کی تشریح کے ضمن میں تحریر کیا ہے، جس طرح رنگ کپڑے کے ظاہر و باطن میں سرایت کر جاتا ہے اسی طرح اللہ کے دین کے سچے عقائد ہمارے رگ و پے میں سماجائیں، ہمارا ظاہر و باطن اس کے رنگ میں رنگ جائے، عیسائیوں کا طریقہ تھا کہ جب اپنے دین میں کسی کو داخل کرتے یا ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو پانی میں زرد رنگ ڈال کر اِس میں اْس شخص یا بچے کو غوطہ دیتے اور کہتے اب یہ سچا عیسائی ہو گیا، اس بات کا اِسی آیت میں رد کر کے فرمایا یہ ظاہری رنگ کسی کام کا نہیں۔

آج ہمارا معاشرہ مختلف رنگوں میں رنگا ہوا ہے اور یہ رنگ مختلف انداز میں مختلف چیزوں کی نمائندگی کرتے ہیں، کہیں پگڑیوں کے سبز، سیاہ، چاکلیٹی اور دیگر رنگوں کے ذریعے، کہیں زرد اور سبز رنگ کے لبادوں کی صورت میں اور کہیں سیاہ رنگ کے پہناؤں کی شکل میں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نے اپنے آپ کو کس رنگ میں رنگا ہوا تھا؟۔ اگر ہم دیکھیں تو صحابہ کرام نے اپنے آپ کو اپنے پیارے نبی کی محبت کے رنگ میں رنگ لیا تھا، انہی کی محبت میں سرشار اور دیوانے تھے، لیکن آج قابل غور بات یہ ہے کہ ہم اور ہمارے بچوں اور نوجوانوں نے اپنے آپ کو کس رنگ میں رنگ لیا ہے؟ اور کس کی محبت میں سرشار اور کس کے دیوانے ہیں؟

رنگوں کی رنگ برنگی اس دنیا سے ایک دن بلا شبہ ہمارا ہر رشتہ و ناتا ٹوٹ جائے گا اور اس میں ہماری چاہت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ بحیثیت فرد اور معاشرہ آج ہمیں موقع ہے اور مہلت ہے کہ ہم اپنی چاہت کے مطابق اپنی زندگی کے رنگ اختیار کریں۔ سورہ آل عمران آیت نمبر 106 میں فرمان الٰہی ہے ’’جب کہ کچھ لوگ سرخ رو ہوں گے اور کچھ کا منہ کالا ہوگا، جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا کہ) نعمت ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ رویہ اختیار کیا؟ اچھا تو اب اِس کفران نعمت کے صلہ میں عذاب کا مزہ چکھو‘‘، آج ہمارے لیے موقع ہے کہ سیاہ بھیڑ اور بِھڑ کی لایعنی بحث سے اپنے آپ کو باہر نکالیں اور اْس بڑی عدالت میں پیشی کے لیے ابھی سے اپنے آپ کو تیار کریں اور ایسے اعمال کریں کہ آخرت میں سرخ رو ہوں۔ اگر ہم صِبغَتْ اللہ کے رنگ میں رنگ جائیں تو زندگی اور معاشرے کے ہر پہلو میں ان رنگوں سے نکھار بھی آئے گا اور سرشاری بھی نصیب ہوگی اور اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہم اپنے ربّ کے حضور حاضر بھی ہوجائیں گے۔ اگر آخرت میں سرخ رو ہونا ہے تو ہمارے ایوان، عدلیہ، حکمران، سیاستدان، ادارے اور عوام کوبھی صِبغَتْ اللہ اختیار کرنا ہوگا۔