اے ابن آدم برسوں سے آپ کی جنگ لڑرہا ہوں۔ کمزور ہوں، بے اختیار ہوں، مگر میرا قلم بااختیار ہے اور حوصلے بلند ہیں ملک کی ایک بہت بڑی ڈاکٹر جو ٹی وی شوز پر نظر آتی ہیں محترمہ صلوت عسکری مجھے کہتی ہیں ڈاکٹر صاحب آپ بہت اچھا لکھتے ہیں سماجی مسائل پر تو آپ کمال لکھتے ہیں۔ میں ہر نماز میں دعا کرتی ہوں کہ آپ کی تحریک ابن آدم کو حکومت مل جائے، تو میں کہتا ہوں میری بہن یہ ملک عام آدمی کے لیے نہیں بنا ہے اور میرے باپ دادا نے تو قربانی دے کر یہ وطن حاصل کیا تھا مگر ہم کو یہ ہجرت راس نہیں ہے، کروڑوں کی جائداد چھوڑ کر آئے مگر سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ نہیں ملا، نہ میں جنرل ہوں، نہ میں سرمایہ دار ہوں، نہ جاگیردار ہوں، نا ہی چودھری ہوں۔ لہٰذا آپ بھول جائیں کہ میں بااختیار بن سکوں، ہاں اگر جماعت اسلامی کی حکومت آجائے تو شاید مجھے کچھ اختیار مل جائے یا ہماری اسٹیبلشمنٹ اگر چاہے تو کچھ ناممکن نہیں، آپ نے پہلے بلدیاتی الیکشن میں دیکھا پیپلز پارٹی نے کس طرح جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمن کے حق پر ڈاکا ڈالا، پھر جنرل الیکشن میں کس طرح سے شہباز شریف صاحب کو وزیراعظم بنا دیا گیا اور جن کا اصل حق تھا اُن سے وہ حق چھین لیا گیا، میری بہن میں اب شعور بیدار کررہا ہوں جو کالم نگار کا اصل کام ہے جو اس کو ایمانداری سے کرنا ہے۔ قارئین سلیب کے بارے میں جانتے ہیں، ارے بھائی قبر کے اوپر جس سلیب کو رکھا جاتا ہے میں اس کی بات نہیں کررہا ایک اور سلیب ہے جو بجلی والوں نے حکومت کے ساتھ مل کر بنایا ہے یہ وہ سلیب ہے جس کی مدد سے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے مگر افسوس کوئی عوام کو ریلیف دینے کو تیار نہیں، جو بجلی پڑوسی چوری کررہا ہے اس کے پیسے بھی آپ کے بل میں لگادیے جاتے ہیں اگر آپ کسی کچی آبادی یا گوٹھ کے قریب رہتے ہیں تو ان کی بجلی چوری کے پیسے بھی آپ کو دینے پڑتے ہیں۔ اس قوم کو بیوقوف بنانے کا ایسا فارمولا جس پر آج تک کسی کا خیال نہیں گیا عوام ازل سے لُٹ رہے ہیں اور حکومت سمیت کوئی ادارہ نوٹس لینے کو تیار نہیں، بجلی کمپنی تو لوٹ مار کر ہی رہی ہے اب سوئی گیس نے بھی سلیب ریٹ پر بل وصول کرنے شروع کردیے۔
سلیب (1) 272 روپے۔ سلیب (2) 1257 روپے۔ سلیب (3) 4570 روپے۔ سلیب (4) 9125 روپے۔ سلیب (5) 18227 روپے۔ سلیب (6) 18290 روپے۔
پہلے سلیب ریٹ اور دوسرے میں 1000 روپے دوسرے اور تیسرے میں 3300 روپے، تیسرے اور چوتھے کا فرق 9000 حکمرانوں اور آئی ایم ایف والوں سلیب نام ہے۔ دھوکے کا، ظلم کا؛ جو انصاف کرنے والوں کو کیوں نظر آتا، کیا چیف جسٹس آف پاکستان نے بجلی اور گیس کے محکمے کی لوٹ مار پر کوئی سوموٹو لیا جبکہ یہ ان کی ریاستی اور آئینی ذمے داری ہے، آپ گاڑی میں پٹرول ڈلواتے ہیں تو کبھی ایک لیٹر 100 روپے اگر دو لیٹر لیں تو 1100 روپے اگر 3 لیٹر لیں تو 3300 روپے، ایسا کبھی نہیں ہوتا، صرف ایک دن ریڈنگ لیٹ لینے سے بل 272 سے 1257 ہوجاتا ہے اور جان کر لیٹ ریڈنگ لی جارہی ہے۔ خدا کے لیے عوام سے جینے کا حق تو مت چھینو، ریٹ بڑھائو ایک روپے یا 2 روپے وہ بھی اربوں میں پہنچ جائیں گے مگر ڈاکا تو مت ڈالو، اس ڈاکے کی کئی شکایات جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمن عدلیہ میں کرچکے ہیں مگر انصاف فراہم کرنے والے اس کو تجارت سمجھ رہے ہیں جبکہ یہ غیر قانونی عمل ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں پھر تو ایک نہیں کئی سوال اٹھتے ہیں مگر بے سود۔
میں کراچی کا بیٹا ہوں لہٰذا کراچی کے لوگوں کے درد کو زیادہ سمجھتا ہوں، بقول ڈاکٹر اسماعیل درانی کے کئی سال سے یہ کراچی مسلسل مافیاز کی گرفت میں ہے مگر قوم کی بے حسی بھی تو کم نہیں ہے۔ ہم بس کھڑے ہو کر روز حکمرانوں کو کوستے رہتے ہیں نہ ان کی بددعائیں کام آتی ہیں نہ سندھ کے حکمرانوں کے کانوں پر جوں رینگتی ہے جبکہ سرکاری اور سیاسی پشت پناہی میں مختلف مافیا روز بروز کھل کر آزادانہ طریقے سے شہر کو لوٹ رہے ہیں۔ پانی مافیا جس کو ٹینکرز مافیا کہتے ہیں واٹر بورڈ جو پانی لائنوں کے ذریعے کراچی کی عوام کو فراہم کیا جاتا ہے وہ چوری کرکے واٹر بورڈ کے عملے کی ملی بھگت سے ہزاروں روپے میں فروخت ہوتا ہے، کراچی میں سرکاری و غیر قانونی ہائیڈرنٹ موجود ہیں جو کراچی کے حصے کا پانی فروخت کرکے کروڑوں روپے بٹور رہے ہیں۔ آپ تھوڑی معلومات حاصل کریں تو آپ کو پتا چل جائے گا یہ سارے ٹینکرز کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کے ذمے دار کے ہوں گے یا کسی سیاسی پارٹی کے ذمے دار کی پشت پناہی میں وہ یہ کام کرتے ہیں۔ یہ خود سب نہیں کھاتے بلکہ اس لوٹ مار میں کئی وزرا، یوسی کے چیئرمین اور علاقے کی پولیس بھی شراکت دار ہوتی ہے۔
جنرل مشرف نے کئی منافع بخش اداروں کی نجکاری کی جس میں KESC شامل ہے جب سے وہ KE بنا عوام کا خون چوسنا شروع کردیا۔ روشنیوں کا شہر اندھیروں میں ڈبو دیا گیا، اربوں روپے کی کاپر فروخت کردی گیا اوور بلنگز کے ذریعے کراچی کے عوام سے ہر ماہ اضافی رقم وصول کی جارہی ہے، جو بولتا ہے اس کے منہ کے حساب سے اس کے منہ میں لڈو بھر دیے جاتے ہیں، اوپر سے نیچے تک سارا عملہ خادم نہیں بلکہ فرعون وقت بنا ہوا ہے۔ سیاسی پارٹیوںکے لوگوں کو ملازمتوں پر تعینات کیا گیا شہر نے دیکھا کہ کیسے کیسے لوگ KE کے ذمے دار پوسٹوں پر براجمان ہو کر اس شہر کے لوگوں کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں۔
محکمہ تعلیم بھی کچھ کم نہیں ہے ہر جگہ سفارشی افسر بیٹھا ہے، معذرت کے ساتھ کراچی شہر کے بچوں کو فیل کردیا جاتا ہے، اندرون سندھ کے نااہل بچوں کو پاس کردیا جاتا ہے، پھر کراچی کے نوجوانوں پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ شہر کراچی پورے ملک کو اپنے وسائل سے پال رہا ہے لیکن بدلے میں ناانصافیاں، محرومیاں، ذہنی کرب اور اس کے ساتھ نااہل راشی، سفارشی افسران کو ہر ذمے دار پوسٹوں پر براجمان کرکے جو کچھ کیا جارہا ہے وہ اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک یہ سب کچھ چل سکتا ہے۔ برداشت کیا جارہا ہے اور جس دن ناقابل برداشت ہوا تو پھر کیا عوام کے لیے فوج کو آنے کی دعوت دو گے اور یہ فوج کبھی اپنی عوام پر گولیاں نہیں چلائے گی کیونکہ اس شہر کے ساتھ ہونے والی زیادتی اس کو بھی نظر آرہی ہے۔ کراچی قابل اور ایماندار افسران سے بھرا ہوا ہے مگر ان سب کو اہم پوسٹوں سے ہٹا کر غیر مقامی افسران کو لا کر بیٹھا دیا ہے۔ خدا کے لیے ملک کا سوچو، عوام کے مسائل کا حل سوچو، غربت کے خاتمے کا سوچو، عوام کو ریلیف دینے کا سوچو، کراچی کی ترقی اور اس کو واپس روشنیوں کا شہر بنانے کا سوچو اگر کوئی غیر مقامی یہ سوچ لے کر آتا ہے تو وہ اس شہر کو قبول ہے۔