ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے ماڈل کالونی، ملیر میں ’’ڈاکٹر عافیہ صدیقی خواتین پارک‘‘ کا افتتاح کیا۔ افتتاح سے دو روز قبل جماعت اسلامی ملیر کے مقامی رہنما عارف خان روحیلہ نے مجھ سے رابطہ کرکے بتایا کہ یوسی 5 ٹی ایم سی ماڈل ٹائون، ملیر میں خواتین کے ایک پارک کی تزئین و آرائش کے بعد اس کا افتتاح کر رہے ہیں اور اس پارک کو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے منسوب کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اس پارک کا افتتاح کریں۔ جب میں نے ڈاکٹر صاحبہ سے اس بابت دریافت کیا تو انہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور حامی بھرلی۔
ڈاکٹرفوزیہ صدیقی جوگزشتہ 21 سال سے اپنی بہن اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی امریکی قید ناحق سے رہائی اور وطن واپسی کی جدوجہد کررہی ہیں، خود بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ انہوں نے ڈائو میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی، امریکا سے نیورولوجی اور مرگی کے مرض کے ماہر (Epilepsy Expert) کی حیثیت سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے فوراً بعد ڈپلومیٹ امریکن بورڈ آف سائیکاٹری اینڈ نیورولوجی اور ڈائریکٹر ایپی لیپسی (مرگی) پروگرام جان ہاپکنس یونیورسٹی امریکا میں خدمات سرانجام دینے لگی تھیں۔ 2003ء میں ڈاکٹر عافیہ کے تین کمسن بچوں سمیت اغواء اور انہیں جبری لاپتا کرنے کا شرمناک واقعہ پیش آنے کے بعد وہ دیار غیر میں سنہرا مستقبل چھوڑ کر وطن واپس لوٹ آئیں۔ عافیہ رہائی تحریک کے مصروف اور پریشان کن 21 سال میں انہوں نے اپنا میڈیکل کا پروفیشن بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ وہ اپنی آمدنی اور بچت کا بڑا حصہ عافیہ رہائی میں صرف کرچکی ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنے مریضوں کا علاج ہی نہیں کرتی ہیں بلکہ انہیں ان کے مہنگی ادویات اور میڈیکل ٹیسٹ کی فکر بھی لاحق رہتی ہے کہ کوئی مریض علاج کرانے کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے علاج کی سہولت سے محروم نہ رہ جائے۔ اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے وقت نکال کر سال میں کئی مرتبہ ’’مفت ایپی لیپسی کیمپ‘‘، جونیئر نیورلوجسٹ ڈاکٹرز کا تربیتی پروگرام ’’منی فیلو شپ‘‘ کا انعقاد اور بیرون ملک نیورولوجی و ایپی لیپسی کانفرنس میں شرکت بھی کرتی ہیں۔ ڈاکٹر فوزیہ کے بارے میں ان باتوں سے آگاہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر حکومت ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے کا دینی، قومی اور آئینی فریضہ کر دے تو دونوں بہنیں یکسوئی کے ساتھ مل کر طب اور تعلیم کے شعبے میں ملک و قوم کی خدمت اور بھی بہتر انداز سے کرسکیں گی۔
ڈاکٹر عافیہ کے نام سے ایک پارک کو منسوب کرنے کا مقصد ان سے اظہار عقیدت اور انہیں خراج تحسین پیش کرنا تھا۔ جماعت اسلامی کی مقامی قیادت نے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ جب ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ماڈل کالونی، ملیر پہنچیں تو ماڈل ٹائون کے چیئرمین ظفر احمد خان، یوسی 1 کے چیئرمین توفیق احمد صدیقی، یوسی 5 کے چیئرمین محمد طلحہٰ خان، جماعت اسلامی کے مقامی رہنما عارف احمد روحیلہ و دیگر نے ان کا استقبال کیا۔ ڈاکٹر صاحبہ کی ماڈل کالونی آمد پر لوگ ان سے اظہار یکجہتی نہیں بلکہ حقیقت میں اظہار عقیدت کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحبہ کی آمد پر پارک کے باہر بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے تھے جن میں اکثریت خواتین کی تھی۔ لوگ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی میں تاخیر پر افسوس اور غم و غصہ کا اظہار کررہے تھے۔ وہ ڈاکٹر عافیہ کے حق میں نعرے لگانے اور حکومت سے ڈاکٹر عافیہ کو جلد وطن واپس لانے کا مطالبہ کررہے تھے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ پارک کو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کے نام پر منسوب کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام قوم کی بیٹی سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ میں چند دنوں بعد عافیہ سے ملنے امریکا جانے والی ہوں۔ وہاں جا کر عافیہ کو بتائوں گی کہ دیکھو پاکستان کے لوگ تم سے کتنا پیار کرتے ہیں اور اگر جیل حکام نے اجازت دی تو اس پارک کی تصاویر بھی عافیہ کو دکھائوں گی۔ انہوں نے کہا کہ جو جذبہ عوام میں پایا جاتا ہے اگر وہ جذبہ قومی لیڈرشپ میں پیدا ہوجائے تو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی چند دنوں میں ممکن ہو سکتی ہے اور ملک کے تمام مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے پارک کا نام ’’ڈاکٹر عافیہ صدیقی پارک‘‘ رکھنے پر علاقہ مکینوں، ماڈل ٹائون کے چیئرمین ظفر احمد خان، یوسی 5 کے چیئرمین محمد طلحہٰ خان اور جماعت اسلامی کے مقامی رہنمائوں کا شکریہ ادا کیا۔ ’’ڈاکٹر عافیہ صدیقی پارک‘‘ عوام کی محبت و اخلاص کو ظاہر کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ان کی مرحومہ والدہ عصمت صدیقی سے جس طرح لوگ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اس سے ہمارا حکمران طبقہ محروم نظر آتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہاں ایسی حکومت قائم ہو جس پر عوام اعتماد کرتے ہوں۔