مالدیپ کو بچانا ہے

476

(بحرِ ہند میں چھوٹے جزیروں پر مشتمل مسلم ریاست مالدیپ کا وجود خطرے میں ہے۔ سمندر کی سطح بلند ہونے سے چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل اس ملک کے ڈوبنے کا خطرہ ہے۔ ملک کے صدر محمد معزو کی یہ تحریر عالمی برادری کو اس مسئلے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ مضمون برطانیہ کے روزنامہ دی گارجین میں شائع ہوا ہے۔)
مالدیپ جیسی چھوٹی اور جزیروں پر مشتمل ریاستوں کا مستقبل سوالیہ نشان کی زد میں ہے۔ ہم بھی اپنی بقا کا اہتمام کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈز کی ضرورت ہے۔ مالدار ممالک اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
چند عشروں کے دوران سمندر کی سطح متواتر بلند ہوتی گئی ہے۔ دنیا بھر میں ماحول کی خرابی سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں نے مالدیپ جیسی ریاستوں کے لیے انتہائی نوعیت کے مسائل پیدا کیے ہیں۔ ہم کئی عشروں سے اپنے وجود کے لیے لاحق خطرات کے ساتھ جی رہے ہیں۔ 1989 میں پہلی بار ہم نے اپنے وجود کو لاحق خطرات عالمی برادری کے سامنے رکھے۔ مالدیپ سمندر کی سطح سے صرف ایک میٹر بلند ہے۔
جب ہمیں یہ محسوس ہوگیا کہ ہماری ریاست کا وجود خطرے میں ہے تب ہم نے اپنے آپ کو بدلنا شروع کیا۔ ماحول سے مطابقت رکھنے والی طرِزِ زندگی اپناکر ہم نے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 35 سال بعد دنیا ہماری آواز واقعی سن رہی ہے۔ ماحول کے بگاڑ کے تناظر کیے جانے والے اقدامات کے حوالے سے جائزہ لیجیے تو کہنا پڑتا ہے کہ دنیا نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس حوالے سے فنڈز کی جو کمی تھی وہ برقرار ہے۔
متعدد عشروں سے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ریاستیں ماحول میں رونما ہونے والی خرابیوں کا نتائج بھگت رہی ہیں۔ ماحول کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج میں مالدیپ کا حصہ 0.003 فی صد ہے۔ پھر بھی نقصان دہ گیسوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا نشانہ مالدیپ بنا ہے۔ مالدیپ جیسے چھوٹے اور بقا کے مسئلے سے دوچار ممالک کی مدد کرنا ترقی یافتہ دنیا کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اسمال آئی لینڈ ڈیویلپنگ اسٹیٹس (ایس آئی ڈی اسٹیٹس) کو انتہائی پس ماندہ ممالک کے لیے مختص کی جانے والی امداد کا صرف 14 فی صد مل رہا ہے۔
دنیا کا مالیاتی نظام فرسودہ ہوچکا ہے۔ یہ نظام تمام متعلقہ مسائل حل کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ جی ڈی پی اور جی این آئی جیسے پیمانوں سے ناپنے کی صورت میں اس مالیاتی نظام کو مالدیپ جیسی ریاستوں کی اصل مالی حیثیت معلوم نہیں ہو پاتی۔ ہم جو کچھ بھی ہیں اُس سے کہیں زیادہ مالدار ہمیں سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمیں مالیات کی سطح پر جو مواقع دیے جانے چاہئیں وہ نہیں دیے جاتے۔
سیاحت کے شعبے کے فروغ نے مالدیپ کو آمدنی کا ایک اچھا ذریعہ فراہم کر رکھا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اس حوالے سے مالدیپ کو بہت مضبوط گردانتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک ہمیں ہماری ضرورت کے مطابق فنڈز نہیں دیتے۔ یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ مالدیپ کی مالی حیثیت بہت اچھی ہے۔ مالدیپ کے وجود کو ماحول میں پیدا ہونے والی خرابیوں سے خطرہ ہے مگر ترقی یافتہ ممالک متوجہ نہیں ہو رہے۔ مالدیپ کے جزائر 90 ہزار مربع کلو میٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس اس مجموعی رقبے کی صرف ایک فی صد زمین ہے۔ ماحول کے بگاڑ کو جھیلنے والے منصوبے فوری شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ فنڈنگ اس طور ہونی چاہیے کہ سود کا بوجھ زیادہ نہ ہو۔ مالدیپ جیسی ریاستوں کے لاکھوں افراد کو اپنے گھروں سے محروم ہو جانے کا خوف لاحق ہے۔ ان ریاستوں میں آباد کم و بیش 6 کروڑ 50 لاکھ افراد کو ماحول کے بگاڑ کا سامنا ہے۔ اُن کے لیے آمدنی کے ذرائع بھی محدود ہیں۔ درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ سمندری طوفانوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور شدت بھی۔ اب مالدیپ میں درجہ حرارت 46 سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔
جزیروں پر مبنی ریاستوں کے لیے فنڈنگ کا مسئلہ روز بروز پیچیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔ ہمارے پاس زمین بہت کم رہ گئی ہے۔ مالدیپ کے دارالحکومت مالے کا رقبہ نیویارک کے سینٹرل پارک کے رقبے سے محض دُگنا ہے۔ یہ دنیا کے گنجان آباد ترین صدر مقامات میں سے ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہمیں بحر ِ ہند کے وسط میں ہُلہُمالے کے نام سے ایک جزیزہ بنانا پڑا۔ اِسے سمندر کی سطح سے 2 میٹر بلند کیا گیا تاکہ ماحول میں رونما ہونے والی پیچیدگیوں سے اچھی طرح نپٹ سکے۔ سمندر کی بپھری ہوئی بے رحم موجوں سے جزیرے کو بچانا ایک بڑا کارنامہ تھا جو ماہرین نے انجام دیا۔ مالدیپ کی معیشت کے لیے اس جزیدے نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اب ایک بڑے شہری مرکز میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ہمارا نیا منصوبہ راس مالے بھی بحرِ ہند کا پہلا ایکو سٹی ہوگا۔ یہ سمندر کی سطح سے تین میٹر بلند ہوگا۔
مالدیپ کے بیش تر جزائر کو سمندر کی سطح سے بلند کرنے کے لیے غیر معمولی فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ راس مالے جیسے منصوبوں کے لیے بہت بڑے پیمانے پر فنڈنگ کی ضرورت ہے مگر ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں اس طرف متوجہ نہیں ہو رہیں۔ عالمی برادری کو سمجھنا چاہیے کہ ہمیں اپنی بقا کے لیے بیرونی فنڈنگ کی اشد ضرورت ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں اور حکومتوں کو اس حوالے سے مالدیپ اور جزائر پر مشتمل دیگر ریاستوں کے لیے اپنا کردار اخلاقی ذمے داری کے تحت ادا کرنا چاہیے۔ اگر عالمی برادری معقول فنڈنگ کرے تو مالدیپ جیسی ریاستیں اپنے جزائر کو پُلوں کے ذریعے جوڑ سکتی ہیں اور یوں رہائش سمیت بہت سے مسائل آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے تحت جلد جلد ایک کانفرنس بھی ہونے والی ہے۔ امید ہے اس کانفرنس میں حوصلہ افزا فیصلے ہوں گے۔