کسی دانا نے بڑی معنی خیز حکایت بیان کی کہ کسی گائوں محلہ میں ایک مرغ تھا جو صبح علی الفجر اذان دے کر فریضہ نماز کے لیے بیدار کرتا تھا۔ اچانک ایک دو دن اس کی اذان سنائی نہ دی تو اس نے صاحب مرغ سے پوچھا کہ مرغ کی اذان نہیں آرہی تو اس نے جواب دیا کہ کچھ بڑوں نے شکایت کی کہ مرغ کی اذان سے اُن کی نیندیں اُڑ جاتی ہیں اور حکم دیا کہ اس مرغ کو ذبح کر ڈالو۔ ورنہ؟ سو میں نے ذبح کر ڈالا۔ صاحب تحریر نے اس کا اختصار یہ بتایا کہ ظالم معاشرے میں جو فرض کی ادائیگی کے لیے اذان الحق بلند کرے اُسے جینے مت دو۔ جی ہاں سندھ میں اب چلن جڑ پکڑتا جارہا ہے۔ صحافت جو شعور اور بیداری کا دوسرا نام ہے عرصہ دراز سے ملک بھر میں زیر عتاب ہے کہ صحافیوں کو غسل لہو دے کر ربّ کے حضور بھجوادو۔ باب الاسلام سندھ کے بچے کھچے باضمیر صحافی اس قتل و غارت کی لپیٹ میں ہیں جو حکمرانوں، سیاست دانوں، ارکان اسمبلیوں کے سیاہ کرتوتوں کو منظرعام پر لا کر اذان الحق سے قوم کو بیدار کرنے اور اپنا فرض ادا کرنے پر اُکسا رہے ہیں، حال ہی میں نصراللہ گڈانی جو عوامی آواز اخبار کے حساس اور پرخطر علاقے میں نمائندہ تھے انہوں نے مظلوموں کی بلند آہنگ آواز بن کر بھوتاروں کی نیندیں حرام کررکھی تھیں وہ اخبار ہی میں نہیں سوشل میڈیا پر ان بھوتاروں کے کالے کرتوتوں پر نکتہ چین تھے تو ہر سرکاری افسر کے لیے اک للکار بھی تھے ان پر قاتلانہ حملہ ہوا، اور یوں یہ صحافی ربّ کے حضور اپنے خون کا مقدمہ لے کر حاضر ہوگیا۔ اس قتل کی انگلیاں جس علاقہ کے ایم این اے کی طرف اٹھ رہی ہیں وہ حکمران پارٹی کا ہے اور اس کا کہنا یہ ہے کہ وہ اس واردات کے مرحلے میں اپنے دوستوں کے ساتھ اسلام آباد آیا ہوا تھا۔
پورے سندھ میں صحافی انصاف کے لیے سراپا احتجاج ہیں کچھ کہتے ہیں کہ نظریہ ضرورت سیاسی کے تحت ان مظاہروں میں بھی کچھ پوشیدہ مقاصد ہیں اور وہ مثال یہ دیتے ہیں کہ بلاول زرداری کے ٹرین مارچ سندھ کے موقع پر نوشہرو فیروز ضلع کے صحافی عزیز میمن نے یہ خبر بریک کی کہ اُن کے استقبال کے لیے جو عورتیں لائی گئیں ان کو پیسے دے کر لایا گیا تھا اور ان عورتوں کی آواز سوشل میڈیا پر الم نشرح کی گئی تو اس کو شان میں گستاخی سمجھا گیا اور اس گستاخ قرار دیے جانے والے صحافی عزیز میمن پر قاتلانہ حملہ کراکر اس کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔ اس قاتلانہ حملہ پر بھی سیاسی نظریہ ضرورت کے تحت یار لوگوں نے پی پی پی کے عمائدین و قائدین کو صحافیوں کے پورے ملک میں جلسہ جلوسوں کو استعمال میں لا کر اپنی ڈگر پر لے آئے اور اب صحافی عزیز میمن کی موت کسی کو یوں یاد نہیں کہ چند گرفتاریاں کرکے خانہ پُری کردی گئی۔ دور کیوں جائیں جان محمد مہر صحافی کا قتل بھی اس لیے ہوا کہ انہوں نے حکمران بھوتار کی زرعی زمین کے معاملے میں حکم عدولی کی اور موت کی سزا پائی۔ انگلیاں جن کی طرف اُٹھ رہی ہیں اس قتل کو سندھ میں مظاہروں سے کچھ حلقوں میں سیاسی توازن کے لیے استعمال میں لایا جارہا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ قاتل کچے کے علاقے جو نوگو ایریا ہے میں روپوش ہیں جو مطلب برآوری کے لیے بھی ہاتھ نہیں لگ رہے ہیں سو اس خون کو اب تک مظاہروں کی صورت جلا بخشی ہوگی ہے۔ بات بن جائے گی تو یہ بھی صحافی عزیز میمن کے قتل کی طرح قصہ پارینہ ہوجائے گا۔
قارئین کو یاد دلاتے چلیں کہ لسانی فتنہ ایم کیو ایم کی سرکوبی کے عمل میں سرفہرست مدیر تکبیر محمد صلاح الدین جیسی طاقتور بااثر شخصیت کی قلم خراشی الطاف حسین کے دل کو تڑپانے لگی تو اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین ایم کیو ایم کے مرکز کی یاترا کے بعد الطاف حسین کا لندن سے بذریعہ فون ملنے والا یہ پیغام اپنے منصب اور فرض کو فراموش کرکے محمد صلاح الدین تک پہنچایا تھا کہ اب ہم آپ کو مزید برداشت نہیں کریں گے۔ (ملاحظہ تکبیر کا شمارہ 3 تا 9 اپریل 92ء) اور پھر 1994ء میں اس دھمکی پر عمل درآمد کرکے محمد صلاح الدین کو شہید کردیا اور قاتلوں، دھمکی دینے اور بھجوانے والے کو بچالیا گیا۔ محمد صلاح الدین کی شہادت میں بھی عدم برداشت کے ساتھ سیاست کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ شادی لارج کے علاقے کے صحافی صوفی محمد خان نے پنجاب سے عورتوں کو اغوا کرکے تھر میں فروخت کرنے کا تہلکہ خیز اسکینڈل اخبارات میں ایسا بے نقاب کیا کہ ارباب تھر تلملا اُٹھے اور پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے ایسے کاموں میں ایک موالی کے ہاتھوں صوفی محمد خان شہید کروادیے گئے اور تو اور سندھ کے وڈیرے تو ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتے ہیں۔ شاہ پور جہانیاں کے نمائندہ جسارت محمد منیر آرائیں کے ایک پلاٹ پر علاقے کے بااثر نے قبضہ کرلیا تو محمد منیر آرائیں نے حرم پاک میں اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم کو داستان ظلم سنائی ان کی خصوصی دلچسپی سے پلاٹ مل گیا وڈیرہ نے اس کو تذلیل اور توہین سمجھا اور محمد منیر آرائیں کو اس کے ملازم کے ہاتھوں شہید کراکر انا کی تسکین کی اور یوں ان تمام درج بالا صحافیوں کے قتل میں قانون نے محمود علی قصوری قتل کیس کی طرح قتل کا حکم یا اشارہ کرنے والے کو تلاش کرنے کی زحمت ہی نہیں کی جس طرح قصوری قتل کیس میں ذوالفقار علی بھٹو کو قصور وار قرار دے کر پھانسی دے دی گئی اور اب اس عدالتی فیصلے کو بھی نا درست قرار دے کر پھر سیاسی نظریہ ضرورت کا سامان کیا گیا۔
حق گو صحافیوں کا یہ سلسلہ قتل اس لیے ہے کہ یہ اذان حق دے کر قوم کو فرض کی ادائیگی کے لیے بیدار کرکے اٹھ کھڑا نہ کریں اور پھر اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہوگا کہ اس قتل پر سیاسی ضرورتوں کا سامان کرکے انصاف کا قتل کریں۔ میاں طفیل محمد کا سعدیہ بنت محمد صلاح الدین کو پرسے میں کہا گیا یہ جملہ سمندر کو کوزہ میں بند کرنے والا ہے کہ ’’بیٹی انصاف روز محشر کو ملے گا‘‘۔ صاحب قلم کا قتل قوم کے شعور کا قتل عام ہے۔ یہ کب تک کیا جاتا رہے گا۔ یاد رکھنا خون رنگ لائے گا انقلاب آئے گا۔ پاکستان بھر کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو قلم کی حرمت پر جان قربان کرنے والوں کی غالب اکثریت کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ سندھ ہی کیوں صحافیوں کا مرگھٹ کیوں بنا ہوا ہے۔ کیا پاکستان کے دیگر صوبوں کے صحافیوں نے حالات سے سمجھوتا کرکے معاملات طے کرلیے ہیں اور انہوں نے آخرت کے بدلے میں دنیا کا سودا کرلیا ہے اور وہ قرآن کے اس فرمان کے مطابق: یہ وہ لوگ ہیں جنہوںنے دنیاوی زندگی کو آخرت کے بدلے میں خرید لیا ہے لہٰذا نہ اُن کے عذاب میں کوئی تخفیف ہوگی اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔ (البقرہ) کے سزاوار چند گھڑی کی زندگی کے خاطر ہوگئے جی ہاں کچھ یوں ہی بات ہے شورش کاشمیری کے بقول قلم فروشی عصمت فروشی سے بھی بدتر ہے۔ اہل قلم کے ٹھاٹ باٹ یہ بتانے کو کافی ہے کہ یہ منڈی کا مال بن چکے ہیں یہ پائوں پکڑ کر قلم کی نوک چبھو کر مال بٹورتے ہیں جو ان کی زندگی میں زہر گھول رہا ہے۔ سندھ میں بھی دیکھا دیکھی قلم فروش صحافیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے مگر جانبازوں کی تعداد اب بھی سندھ میں بڑھ کر ہے۔ یہ اب کی عنایت ہے شہادتوں کا تمغہ سندھ کے صحافیوں کا طرہ امتیاز ہے۔