انصاف کی تاریخی تذلیل

529

پیر 20مئی 2024 کے روز بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر نے مبینہ جنگی جرائم کے الزام میں اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو، ان کے وزیر دفاع یوآوگیلنٹ اور حماس کے تین رہنمائوں یحییٰ سنوار، محمد ضعیف اور اسماعیل ہنیہ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر وارنٹ گرفتاری کی درخواست کی۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی جے) اقوام متحدہ کا سب سے بڑا ادارہ ہے جو ریاستوں کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے کوشش کرتا ہے جب کہ آئی سی سی افراد کے خلاف مبینہ جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کا مقدمہ چلاتا ہے۔

عالمی عدالت انصاف کے انسانیت کے خلاف جرائم پر اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو اور گیلنٹ کی گرفتاری کا کوئی امکان نہیں تاہم غزہ کی جنگ کے معاملے پر اس اقدام کو اسرائیل کے لیے بڑا دھچکا اور عدل وانصاف کی بہت بڑی علامت کے طور پر دیکھا جارہا ہے حالانکہ یہ انصاف نہیں ایک ایسی عدالتی جارحیت ہے جس میں ظالم اور مظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا گیا ہے، قاتل اور مقتول کو برابر قرار دیا گیا ہے۔ یہودی عفریت کے ساتھ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کرنے والے مجاہدین کا ذکر کرنا انصاف کی تاریخی تذلیل ہے۔

اسرائیل نے امریکا کی اعانت سے فلسطین میں قیام امن کے عالمی عدالت انصاف کے احکامات اور سلامتی کونسل کی ہدایات کو حقارت سے ٹھکراتے ہوئے فلسطینیوں کی نسل کشی کو غزہ میں ہولناک مرحلے تک پہنچایا ہے یہاں تک کہ غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹادیا ہے لیکن عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کا کہنا تھا کہ غزہ پر حملوں میں اسرائیل شہری سہولتوں کو کم سے کم نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے،کلام اور عمل کے تضاد کا اس سے زیادہ بھیانک نمونہ ممکن نہیں۔ اس کے باوجود عالمی امن کے ٹھیکیداروں اور ذمے داران نے اسرائیل کو نسل کشی سے روکنے کی کوئی کوشش کی اور نہ فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے کچھ کیا۔

یورپی عیسائی حکومتوں اور امریکا کے انسانیت سے کٹ جانے کے اس قدرخوفناک اور شدید عمل نے خود اہل مغرب کو ہلاکر رکھ دیا ہے، اسے مغرب کے زوال کی علامت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ان کی یونی ورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیمی ادارے اہل فلسطین کے حق میں احتجاج کے مرکزبن گئے۔ حالت یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی مغربی اہلکار کہیں بھی خطاب کرتا سامعین میں سے کوئی اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا اور اسے جھوٹا اور دروغ گو قرار دیتا۔ وہ اہل فلسطین خصوصاً غزہ کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی پر اپنے قائدین کو شرمندہ کررہے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف کے اس مصنوعی اور غیر حقیقی فیصلے سے استعماری قوتوں کی بے حسی کا ازالہ کرنے اور اہل مغرب کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے، یہ مغرب پر لوگوں کے کم ہوتے ہوئے اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش ہے۔ عملی طور پر جس سے یہودی وجود کو کوئی نقصان پہنچنے کا امکان ہے اور نہ اہل فلسطین کے روزو شب کی طرف بڑھتے طوفانوں کا پارہ پارہ ہونا ممکن ہے۔

بین الاقوامی عدالت برائے انصاف نے جمعہ 24 مئی کی سہ پہر دی ہیگ میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ’’اسرائیل کو فوری طور پر اپنا فوجی حملہ اور رفح گورنری میں کوئی بھی دوسری ایسی کارروائی روکنا چاہیے، جس سے غزہ میں فلسطینی آبادی کے لیے ایسے حالات پیدا ہوں، جو اس آبادی کی مکمل یا جزوی طور پر جسمانی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں‘‘۔ عالمی عدالت نے اسرائیل کو تفتیش کاروں کی غزہ پٹی تک رسائی کو یقینی بنانے کا حکم بھی دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے لیے رفح بارڈر کراسنگ کھولنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ آئی سی جے کے اس فیصلے کا دنیا بھر میں انتظار کیا جا رہا تھا۔ ایک بیان میں مزید کہا گیا، ’’اسرائیل کو فوری طور پر درکار بنیادی خدمات اور ضروری انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی کے لیے رفح کراسنگ کوکھولنا ہو گا‘‘۔ بین الاقوامی خاموشی، بے عملی اور پیچیدگیوں کے درمیان بین الاقوامی عدالت برائے انصاف کے اس فیصلے کے عملی نفاذ کی کوئی صورت نہیں۔

اسرائیلی وزیرخزانہ اسمٹریچ کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے حکم پر کسی صورت عمل نہیں کیا جاسکتا۔ اسرائیلی وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ روکنے کا مطلب اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ صدر بائیڈن نے الزام عائد کیا کہ حماس نے پہلے دراندازی کرتے ہوئے اسرائیل پر حملہ کیا جس کے جواب میں اسرائیل نے کارروائی کی۔ مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلوں کی کوئی عملی حیثیت نہیں ہے اس نے روس کو بھی حکم دیا تھا کہ وہ یوکرین پر اپنے حملے روک دے لیکن روس نے اس فیصلے کو گھاس کی پتی کے برابر بھی وقعت نہیں دی۔

اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عدالت انصاف مغرب کا ایک ڈھونگ اورکٹھ پتلی تماشا ہے جو مغرب کے مفادات کی نگہبانی کرتا ہے۔ وہ مغرب جو اسرائیل کے قیام کے وقت سے اسے ہر طرح کی مالی اور فوجی امداد دے رہا ہے، اس کی بقا کا ضامن بنا ہوا ہے کیسے ممکن ہے اس کا کوئی ادارہ اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں جاسکے؟ فلسطین کاز سے اسے کوئی ہمدردی ہو۔ اور نہ ہی کبھی ماضی میں اس نے اہل فلسطین کی کوئی عملی مدد کی ہے۔ ایک ایسے فیصلے کی ستائش کیسے ممکن ہے جس میں اسرائیلی درندوں اور حماس کے مجاہدین کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا گیا ہے، یکساں طور پر دونوں کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے گئے ہیں۔ پھر عالمی عدالت انصاف کے پاس کوئی قوت نافذہ نہیں ہے وہ اپنے اتحادی ممالک پر انحصار کرتا ہے۔ اسرائیل اور امریکا کے اس فیصلے کو ٹھکرائے جانے کے بعد اسرائیل اور اس کے وزیراعظم کی گرفتاری کا کوئی امکان نہیں البتہ حماس کے رہنما زیر عتاب آسکتے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم کی گرفتاری فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ فلسطین کے مسئلہ کا حل یہودی وجود کا خاتمہ ہے۔ مسلمان جنگ بندی یاجنگ کا خاتمہ نہیں اسرائیلی وجود کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ نہ عالمی عدالت انصاف، نہ عالمی فوجداری عدالت، نہ اقوام متحدہ اور نہ جو بائیڈن ایسا کریں گے۔ یہ سب مسلم دشمن اتحاد کا حصہ ہیں۔ مسلم دشمنی میں سب یکجا ہیں ایسا تب ہی ممکن ہوگا جب دو ریاستی حل کو سختی سے مسترد کر دیا جائے اور تمام مسلم ممالک کی افواج مسجد اقصیٰ کی سمت متحرک ہوں۔

اقوام متحدہ ہی دراصل وہ پردہ تھا جس کی آڑ لے کر امت مسلمہ سے قبلہ اوّل چھیننے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ دو ریاستی حل کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے اس کے بعد یہودی، عیسائی اور مسلمان یکجا طور پر بھائیوں کی طرح رہنے لگیں گے کوئی بے وقوف ہی اس بات پر اعتبار کرسکتا ہے۔ اس پیچیدہ ڈرامے کے کردار نام نہاد مغربی امن ساز تھے جو مخالف فریقوں کو ایک میز پر جمع کیا کرتے تھے۔ اس منصوبے کے معاون ومددگار وہ گونگے اور بہرے مسلم حکمران تھے جو اسی وقت بولتے تھے جب انہیں اس کی اجازت دی جاتی تھی۔ صہیونی ریاست کی جانب سے فلسطین میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر اقوام متحدہ میں متعدد قراردادیں منظور کی گئیں،لا تعداد معاہدوں پر دستخط ہوئے پھر بھی وہ یہودی وجود کے غاصبانہ قبضے سے نجات دلانے اور فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے شدید مظالم کو روکنے میں ناکام رہے۔ عالمی فوجداری عدالت کا یہ فیصلہ اسرائیل کا کیا بگاڑ لے گا؟؟