کراچی کے شہریوں سے دوستی کا ایک عرصے سے دم بھرنے والی کے الیکٹرک نے شکایت کی ہے کہ جماعت اسلامی اس کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ اب یہ بات سمجھانے کے لیے کسی مشکل فارمولے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ شکایت ہے یا کراچی کے شہریوں کے لیے خوش خبری کہ جماعت اسلامی شہریوں کے حقوق کے لیے اس قدر موثر آواز اٹھاتی ہے کہ کراچی دشمنی کا ریکارڈ رکھنے والا ادارہ چیخ اٹھا کہ جماعت اسلامی ہماری دشمن ہے، ادارے کا کوئی معمولی ترجمان نہیں بلکہ سب سے اوپر کا افسر سب سے نچلی سطح پر آگیا، صوبائی وزیر توانائی و پلاننگ ڈیولپمنٹ صوبہ سندھ سید ناصر حسین شاہ کی زیر صدارت کے الیکٹرک کی انتظامیہ اور سندھ اسمبلی کے پارلیمانی لیڈرز و ارکان اسمبلی کے اجلاس میں جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے کراچی میں جاری بدترین لوڈ شیڈنگ پر کے الیکٹرک انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک AT&C نقصانات کی بنیاد پر نیپرا قوانین کے برخلاف لوڈ شیڈنگ کررہی ہے، محمد فاروق نے جب کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر مونس علوی سے مطالبہ کیا کہ وہ رات 11بجے سے صبح 8بجے تک لوڈ شیڈنگ ختم کریں تاکہ عوام کو کم از کم رات میں تو سکون مل سکے، جس پر مونس علوی نے کہا کہ ہم رات کی لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کرسکتے، مونس علوی کی جانب سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے سے انکار پر محمد فاروق نے کہاکہ اس غیر قانونی لوڈ شیڈنگ کو نیپرا نے 3اپریل 2024ء کو کے الیکٹرک کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے 5کروڑ روپے کا جرمانہ عاید کیا تو کیا کے الیکٹرک پھر بھی نیپرا کے فیصلے اور قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لوڈ شیڈنگ جاری رکھے گی، محمد فاروق کے سوال پر مونس علوی آگ بگولہ ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے جرمانہ ادا کردیا ہے لوڈشیڈنگ جاری رہے گی۔ جماعت اسلامی کے الیکٹرک کی سب سے بڑی دشمن بنی ہوئی ہے۔ مونس علوی کے ان ریمارکس کو کیا کراچی دوستی کہا جاسکتا ہے؟ اور جس لوڈ شیڈنگ کو ختم کرنے کی بات محمد فاروق نے کی تھی اس کو تو کے الیکٹرک خود لوڈ شیڈنگ مانتی ہے ورنہ فالٹ اور مینٹیننس کے نام پر ہونے والی بجلی بندش کو تو شمار ہی نہیں کیا جاتا، کے الیکٹرک کے سی ای او کیا جانیں لوڈ شیڈنگ کیا ہوتی ہے اور بجلی کے بغیر بل آنے پر پچیس، تیس ہزار تنخواہ والوں کا کیا حال ہوتا ہے، کے الیکٹرک کی سب سے بڑی دشمنی یہی تو ہے کہ جماعت اسلامی اور اس کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے اہل کراچی پر کے الیکٹرک کے ظلم اور لوٹ مار کے خلاف مسلسل جدوجہد کی اور اہل کراچی کی توانا آواز بنی، اب صوبائی وزرا کی موجودگی میں کے الیکٹرک چیف ایگزیکٹیو کا نیپرا قوانین ماننے سے انکار آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے، اور یہ کہنا کہ جرمانہ ادا کردیا ہم لوڈ شیڈنگ بند نہیں کریں گے ایسا ہی ہے کہ ہم جرم کرتے رہیں گے اور جرمانہ دیتے رہیں گے، پانچ کروڑ جرمانہ بھی کے الیکٹرک کی لوڈ شیڈنگ، جعلی اضافی بلوں اور دیگر ہتھکنڈوں کے سامنے کچھ بھی نہیں، اتنی رقم تو وہ ایک چھوٹے سے غریب علاقے کے جعلی بلوں سے پیدا کرلیتی ہے۔
کے الیکٹرک کے سی ای او کا رویہ عوام کے منتخب نمائندوں کے ساتھ بھی جارحانہ اور غیر مناسب تھا اس کا اندازہ کے الیکٹرک کے دفاتر میں شہریوں کے ساتھ بدتمیزی اور تضحیک آمیز رویے سے ہوجاتا ہے، نچلی سطح پر یہ رویہ کے الیکٹرک کے اعلیٰ سطح پر اختیار کیے جانے والے رویے کے باعث ہی ہے کیونکہ کراچی سے دشمنی کے الیکٹرک کی سرشت میں ہے، اجلاس میں صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے بھی سی ای او کے طرز عمل کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ رویہ کسی صورت قبول نہیں۔ لیکن اس ناقابل قبول رویے پر مرکز اور سندھ کی حکمران جماعت کیا کررہی ہے، پھر اس جانب خیال کیوں نہ جائے کہ کے الیکٹرک نے حکمراں جماعتوں کو خرید رکھا ہے ان کو فوائد پہنچائے جاتے ہیں، ان کے پیاروں اور رشتہ داروں کو اعلیٰ مناصب اور بھاری مراعات دی جاتی ہیں اس لیے وہ کے الیکٹرک کو کھلی چھوٹ دینے پر راضی ہیں، اور جو عوام کی آواز ایوانوں تک پہنچائے وہ سب سے بڑا دشمن، اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ وزرا اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کی موجودگی میں کے الیکٹرک کے سی ای اوکو اتنی جرأت کیسے ہوگئی کہ وہ عوام کے حق کی آواز اٹھانے کو ادارے سے دشمنی قرار دے۔ اس کی وجہ وہی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ اس نے سب کے منہ بند کررکھے ہیں۔ ان میں سے صرف جماعت اسلامی والے رکن اسمبلی کو توفیق ہوئی کہ وہ آواز اٹھائے اور عوام کی نمائندگی کرے، کے الیکٹرک سے کسی نے سوال نہیں پوچھا کہ اس نے سستی بجلی پیدا کرنے کا وعدہ پورا کیوں نہیں کیا یہ وعدہ ہی نہیں بلکہ اس کے معاہدے کا حصہ ہے، اور اس کی خلاف ورزی پر بھی نیپرا اور حکومتیں خاموش ہیں، دراصل یہ سب ایک ہیں اور ان کو چیلنج کرنے والی جماعت ان کی دشمن، ان کے بارے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو، اور یہی سب عوام اور کراچی سے دوستی کا دم بھرتے ہیں، ایسی دوستی سے دشمنی ہی بھلی۔ اب زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ ایسے اجلاسوں میں جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی کو بلایا ہی نہیں جائے گا تاکہ وہ کراچی کے دشمنوں کے رنگ میں بھنگ نہ ڈال سکے۔ چونکہ کچھ دن تک حکومتی سطح پر کسی نے کے الیکٹرک کے سی ای او کی باتوں کا نوٹس نہیں لیا تو کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مونس علوی کا کہنا ہے کہ کراچی کے شہری بل ادا کریں گے تو لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کراچی کے 70 فی صد علاقوں میں لوڈشیڈنگ نہیں ہے، اور کراچی کے عوام پر کے الیکٹرک کے 70 ارب روپے واجب الادا ہیں لہٰذا کراچی کے شہری بل ادا کریں گے تو لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی، سوال یہ ہے کہ کیا 70 ارب روپے صرف عوام پر واجب ہیں۔ کسی چھوٹے صارف کو 60 دن تک بھی بل کی ادائیگی کے بغیر نہیں چھوڑا جاسکتا، ادا شدہ بل پر بھی بجلی کاٹ دی جاتی ہے، حکومت بتائے کہ یہ 70 ارب کس پر واجب ہیں، دوسری طرف وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے لوڈشیڈنگ پر احتجاج کرنے والے شہریوں کو انوکھا مشورہ دے دیا۔ کہتے ہیں کہ بجلی کا مسئلہ ہمارے کنٹرول سے باہرہے، جو لوگ بجلی کا بل دیتے ہیں وہ لوڈشیڈنگ کا سامنا کیوں کرتے ہیں، کراچی میں الیکٹرک سزا کا نظام کے الیکٹرک نے نافذ کردیا، جو لوگ بل نہیں دیتے ان کیخلاف ایف آئی آر ہونی چاہیے۔ وزیر بلدیات سندھ نے کہا کہ ایک محلے میں کچھ گھر بل نہیں دیتے توکیا آپ پورے علاقے کی بجلی کاٹ دیں گے، احتجاج کرنے والوں پر ہی مقدمہ درج کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہو تو احتجاج کے بجائے کے الیکٹرک کے دفتر جا کر ان کے اے سی اور پنکھے بند کردیں۔ انہوں نے سوال کیا لوگوں کو پانی کا بل بھی دیناچاہیے لیکن وہ نہیں دیتے، اگر لوگ پانی کا بل نہیں دیتے تو کیا ہم پانی بند کردیں گے؟ وزیر بلدیات نے مزید کہا کہ بجلی فراہم کرنا اور مشکلات کو ٹھیک کرنا ہماری ذمے داری نہیں، کے الیکٹرک کے پاس مسائل کا حل ہے وہ لوڈشیڈنگ میں کمی کرسکتی ہے۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حکومت کے پاس مسائل کا کوئی حل بھی ہے کہ نہیں۔