حکومتی سرپرستی میں ادارے تباہ کیوں؟

616

اے ابن آدم یہ ہمارا المیہ ہے کہ جب کسی کو اقتدار حاصل ہوتا ہے تو وہ پرانی حکومت کے افسران کو ہٹا کر اپنی پسند کا افسر لے کر آتا ہے کیونکہ وہ یہ بات جانتا ہے کہ پرانے افسران اس کا حکم نہیں مانیں گے، لہٰذا وہ اپنی پوری چین بنا کر چین سے اپنی مرضی کے کام لینا شروع کردیتا ہے، موجودہ حکومت سے بھی تاحال عوام کو کوئی بڑا ریلیف نہیں مل سکا، ملا تو آزاد کشمیر کے عوام کو ملا۔ بجلی 3 روپے یونٹ سے شروع اور آٹے میں ریکارڈ ریلیف حاصل کیا مگر اس کے پیچھے ان کی محنت اور احتجاج کا ہاتھ ہے۔ ہمارے ملک میں سوائے جماعت اسلامی کے کوئی سیاسی، مذہبی جماعت عوامی مسائل پر احتجاج نہیں کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی نے ملکی سطح پر احتجاج کی کال دے دی ہے، اللہ کرے کراچی سمیت پورے پاکستان کو سستی بجلی نصیب ہو، عوام کو چاہیے کہ وہ اس عوامی مہم میں جماعت کا ساتھ دیں اور پرامن احتجاج کرکے ایک نئی تاریخ رقم کریں۔ موجودہ حکومت سے فیض کی توقع نظر نہیں آتی کیونکہ حکومت کرنے کا حق تو فارم 45 والوں کا تھا مگر اسٹیبلشمنٹ نے فارم 47 کے حق میں فیصلہ دے کر قوم کے ساتھ بہت ظلم کیا ہے۔
اس وقت بے روزگاری اپنے عروج پر ہے، مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے چور بازاری، ٹیکس چوری، منافع خوری، کرپشن، چوری، ڈاکا، قتل یہ سب آزادانہ ہورہا ہے۔ نوجوان ملک چھوڑ کر جانے کی سوچ و فکر میں لگا ہے، اب ملک سے باہر جانے کے لیے اس کو پاسپورٹ کی ضرورت پڑی تو ایک نئی کہانی سامنے آئی کہ جس کاغذ پر پاسپورٹ بنایا جاتا ہے وہ Stock میں نہیں ہے۔ خاص مدت سے پاکستانی عوام کو غیر معمولی تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس پر ظلم یہ کہ پاسپورٹ کی فیس میں بھاری اضافہ کردیا ہے۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے نارمل کی فیس 3 ہزار تھی جو ساڑھے 4 ہزار، ارجنٹ فیس 5 ہزار تھی جو ساڑھے 7 ہزار، 10 سالہ پاسورٹ کی فیس 4 ہزار سے بڑھا کر 6700 جبکہ 10 سالہ ارجنٹ 7500 سے بڑھا کر 11200 کردی ہے۔ پاسپورٹ کی فاسٹ ٹریک کیٹگری کی فیسوں میں مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔ 72-36 اور 100 صفحات کے مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ کی فیس اب 36 صفحات والے کی فیس 12500، 72 صفحات کی فیس 18500، 100 صفحات کی فیس 30 ہزار ہوگئی۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق امیگریشن اینڈ پاسپورٹ حکام نے تصدیق کی ہے کہ ملک میں التوا کی شکار درخواستوں کی تعداد 6 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ نارمل فیس کے ساتھ پاسپورٹ کے لیے درخواست دینے والے اکثر شہریوں کے پاسپورٹ دسمبر کے بعد سے پرنٹ نہیں ہوپائے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ملک کی تاریخ میں کبھی بھی اس طرح نہیں ہوا جو اس حکومت کے دور میں ہورہا ہے پیسے ڈبل لینے کے باوجود عوام پاسپورٹ کے حصول کے لیے پریشان ہے۔
وزیراعظم اور حکومت ادارے کے سامنے بے بس جس طرح سے IPPs کے آگے سب جماعتیں، قومی ادارے اور حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ کراچی اس وقت تباہ حال شہر بن چکا ہے، شہر کا سیوریج نظام تباہ، پینے کا پانی انمول ہم اپنے حصے کا پانی خرید کر پی رہے ہیں اور حرام میں ہر ماہ واٹر بورڈ کا بل صرف پاکستان کی محبت میں ادا کرتے ہیں، بجلی کا نظام جس نے لوگوں کو ذہنی اذیت کا شکار کررکھا ہے، چھوٹے کاروبار تو بے وقت لوڈشیڈنگ کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں، نجانے یہ ادارہ کیا چیز ہے جو وزیراعظم اور عدالت عظمیٰ کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، کوئی اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ ادارہ زائد، اوور، ناجائز بلنگ سے کراچی کے عوام کو لوٹ رہا ہے اور کوئی نہیں ہے اس ملک میں جو اس ظلم سے عوام کو نجات دلا سکے۔ اب تو گیس کی لوڈشیدنگ شروع ہوچکی ہے بل اس نے بھی بڑھادیے ہیں یہ ایک واحد ادارہ تھا کہ جس کا بل دیکھ کر دل خوش ہوتا تھا مگر اب اس نے بھی آئی ایم ایف کے فلسفے پر کام شروع کردیا ہے۔
ٹرانسپورٹ مافیا اپنی من مانی کررہا ہے، چنگ چی رکشے کا کرایہ 30 سے شروع ہو کر 150 تک پہنچ گیا، سب غیر مقامی یہ رکشے چلا رہے ہیں، روڈ پر رکشے چلانے کا کوئی قانون نہیں ہے، 15 سال کے غیر مقامی بچے یہ رکشے چلا رہے ہیں مگر پولیس ان کو پیسے لے کر چھوڑ دیتی ہے۔ صوبائی وزرا زمینوں پر قبضے کروا رہے ہیں، تمام مافیا کی سرپرستی کرتے ہیں، سرکاری نوکریاں فروخت کی جارہی ہیں، گٹکا مافیا اوپر تک ہفتہ پہنچا رہا ہے۔ سب مل کر قائداعظمؒ کے شہر کو تباہ کررہے ہیں، کراچی کی آواز کو دبایا جارہا ہے۔ اس وقت KGA کے سربراہ اسلم خان، مہاجر اتحاد تحریک کے سربراہ سلیم حیدر، ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد وہ لوگ ہیں جو کراچی کے حق کے لیے آواز اٹھارہے ہیں۔ جماعت اسلامی تو واحد جماعت ہے جو بیان نہیں بلکہ عملی طور پر سڑکوں پر آکر کراچی کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔ اگر ایس بی سی اے کے عملے اور افسران کی انکوائری ہو تو اربوں روپے کی کرپشن سامنے آئے گی۔ سندھ گورنمنٹ کا ایک محکمہ ایسا ہے جس کے ڈی جی سے ملنا بے حد مشکل کام ہے، ایک ایک افسر کے کمرے پر لاکھوں روپے کا خرچ جبکہ یہ محکمہ ورلڈ بینک کی مدد سے بنایا گیا تھا، اس کا کام نوجوانوں کو مفت تعلیم دے کر ہنر مند بنانا تھا، اس کا نام ہے (STAVTA) جلد اس پورے ادارے کے اندر کی کہانی سامنے آئے گی۔ میرا مقصد کسی کو بلیک میل کرنا نہیں بلکہ میں اصلاح چاہتا ہوں، کرپشن سے پاک اپنے ملک کے ادارے دیکھنا چاہتا ہوں، میرٹ پر نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے یہ چاہتا ہوں، سندھ کے تمام محکموں میں 60 فی صد اور 40 فی صد کوٹے پر ایمانداری سے عمل کیا جائے تو میرا کسی سے کیوں جھگڑا ہو، جب عدلیہ فوری اور سستا انصاف فراہم کرنا شروع کردے گی تو یہ قلم اس کی تعریف میں چلے گا، اگر تمام فورسز اپنا کام ایمانداری سے کریں تو یہ ملک بے نظیر بن سکتا ہے۔ معاشرے کے اُن بے حس لوگوں سے جو بااختیار ہونے کا سفاکانہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو خود ہی سانحہ برپا کرکے پھر بہت دھوم دھام سے سوگ مناتے ہیں۔ اپنی املاک جلاتے ہیں اور پھر اپنے سیاسی، مالیاتی اور اختیاراتی مفادات کی بھٹی کے الائو کو روشن کرنے کے لیے انسانوں کو اس کا ایندھن بناتے ہیں، پھر بہت سے انسان اس بھٹی میں کوئلہ بن کر راکھ ہوجاتے ہیں، پھر بے حساب گھروں سے چیخیں، آہیں اور سسکیاں اُبھر کر دم توڑ جاتی ہیں۔ پھر نئے سوگ منانے کا اہتمام شایان شان طریقے سے کیا جاتا ہے، پھر اسی سوگ کی آڑ میں نت نئے مظالم کی داستانیں رقم کی جاتی ہیں، وحشت کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تک جاری رہے گا، ابھی بھی وقت ہے ظالم کے ہاتھ کو روکنا ہوگا۔ غلطیاں اور بھول چوک ہوجانا محض تقاضا بشریت ہے جیسی غلطی ہو سزا کا ملنا بھی فطری زندگی اور معاشرتی اصول ہے لیکن سزا کے نام پر ظلم کا اختیار کسی کو بھی نہیں ہے۔ سزا کے نام پر ظلم کرنا سنگین جرم اور ناانصافی ہے جو کہ قابل مذمت بھی ہے اور قابل گرفت بھی۔ طاقتور، بااثر اور بااختیار ہونے کی وجہ سے اگر اس دنیا میں کوئی بچ جائے تو یہ جرم مزید دہرا ہوجاتا ہے، صرف اتنا یاد رکھا جائے ایک دن تو مقرر ہے جب طاقتور اور کمزور سے پوچھ گچھ ہوگی، اللہ کو نہ بھولو، مظلوم کی داد رسی کرنا ہر انسان پر فرض ہے، آئیں یہ وعدہ کریں ہم سب کوئی بھی ہوں کسی طبقے سے تعلق ہو ’’انسانیت اور انصاف‘‘ کو اپنا شعار بنالیں تو یہ میرا وطن جنت کی نظر بن سکتا ہے۔