مسلم لیگ (ن) میڈیا کوریج، جسارت کے اشتہارات کی بندش

520

بھلا کسی ایک سیاسی پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں ایسی کیا خاص بات ہو سکتی ہے کہ مقامی سے لے کر قومی اور سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ٹی وی چینلوں نے اپنی معمول کی نشریات روک کر طویل اور مسلسل کارروائی براہ راست نشر کی۔ 18 مئی کو یہ پھولوں سے لدی اور سجی ہوئی میزوں کے درمیان بیٹھے تقریباً 150 افراد پر مشتمل مسلم لیگ(ن) کا پارٹی اجلاس تھا جس میں وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب سمیت اہم وفاقی وزراء اور حکومتی اراکین بحیثیت پارٹی رہنما اور ورکر کے شریک تھے، بھلا ایسی سیاسی پارٹی کے پروگرام کی مکمل کوریج میڈیا اب نہیں تو پھر کب کرے گا؛ جب مسلم لیگ(ن) الیکشن کے موقع پر جہازی سائز کے اشتہارات اخبارات کو دے، ٹی وی چینلوں پر کئی کئی منٹ پر محیط ’’پیک آورز‘‘ میں اور ہر تھوڑے وقفہ بعد اشتہارات کی بارش برسائی جائے اور حکومت میں آنے کے بعد اپنی صوابدید پر اخبارات کو اشتہارات کی بندر بانٹ کی جائے تو پھر کیا ایسا نہیں ہوگا؟، ورنہ ہرکس و ناکس کے علم میں ہے کہ مسلم لیگ(ن) کو کتنی عوامی پزیرائی حاصل ہے؟، سچی بات تو یہ ہے کہ اگر پنجاب کے مقامی چینلوں پر کسی حد تک کوریج ہو تو شاید کسی حد تک یہ بات ججتی، اس لیے کہ پنجاب کے علاوہ مسلم لیگ(ن) کا وجود کہاں اور کس جگہ ہے؟ کراچی جس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے وہاں مسلم لیگ(ن) چند مضافاتی بستیوں کے علاوہ کہیں قابل ذکر تعداد میں موجود نہیں، اندرون سندھ تو پیپلز پارٹی کا توتی بولتا ہے۔ اسی طرح کے پی کے اسمبلی کی صورتحال سب پر عیاں ہے، اس کے باوجود مسلم لیگ(ن) اپنے رہنماؤں کے بیانات کی تشہیر کے لیے ٹی وی چینلوں کا استعمال اپنے اثر رسوخ اور حکومتی لالچ اور دباؤ کے تحت کراتی ہے اور یہ چینل بھی اپنے اپنے مفادات کے لیے برضا و رغبت یہ خدمات سرانجام دیتے ہیں۔
یہ تو مسلم لیگ(ن) کا حال ہے، دوسری حکومتی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی من پسند اخبارات کو نوازنے اور اس کے مقابلے میں جسارت کو انتقامی اور متعصبانہ کارروائیوں کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ جسارت 54 سال سے شائع ہونے والا کثیر الاشاعت اخبار ہے، جسے طویل عرصے سے اشتہار کی بندش کے بعد اب اس کا نام سندھ کی میڈیا لسٹ سے خارج کر دیا کہ جسارت ریگولر اخبار نہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اعلیٰ حکومتی شخصیت کی ہدایت پر محکمہ اطلاعات سندھ نے روزنامہ جسارت کو اپنی لسٹ سے نکال باہر کیا۔ 19 مئی کے جسارت ہی کی تفصیلات کے مطابق محکمہ اطلاعات سندھ نے میڈیا کو جو اشتہارات جاری کیے ہیں وہ عجیب کرپشن کی غضب کہانی کے مِصداق ہے۔ 2022 سے 2024 تک جسارت کے اشتہارات غیر اعلانیہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے محکمہ اطلاعات نے بند کر رکھے ہیں۔ محکمہ اطلاعات سندھ نے 174 ڈمی اخبارات کو تین برس میں دو ارب 47 کروڑ کے اشتہارات جاری کیے۔ گزشتہ تین برسوں میں 40 ریگولر اخبارات کو دو ارب سے زیادہ کے اشتہار دیے گئے جو 40 فی صد ہے۔ 174 ڈمی اخبارات کو تین برس میں دو ارب 47 کروڑ کے اشتہار دیے گئے جو 60 فی صد ہے۔ اس کی تفصیلات اس طرح ہیں انگریزی کے 11 ریگولر اخبارات کو 43 کروڑ 34 لاکھ سے زائد، اردو کے 21 ریگولر اخبارات کو 70 کروڑ نو لاکھ سے زائد، سندھی کے آٹھ ریگولر اخبارات کو 94 کروڑ ساڑھے 42 لاکھ سے زائد اسی طرح سندھی کے 97 ڈمی اخبارات کو ایک ارب 87 کروڑ 99 لاکھ سے زائد، اردو کے 51 ڈمی اخبارات کو 42 کروڑ 22 لاکھ 94 ہزار سے زائد اور انگریزی کے 26 ڈمی اخبارات کو 13 کروڑ 47 لاکھ سے زائد کے اشتہارات دیے گئے۔ ڈمی اخبارات اِن 60 فی صد اشتہارات کو حاصل کرنے کے لیے 40 تا 60 فی صد رشوت کی مد میں نقد ادائیگی کرتے ہیں۔ محکمہ اطلاعات میں ٹھیکے داری سسٹم رائج ہے جس کے مطابق نیچے سے اوپر تک کا حصہ پہنچایا جاتا ہے۔ سندھ انفارمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق تین برس میں چار ارب 74 کروڑ 38 لاکھ 22 ہزار کے ٹوٹل میں جسارت کو صرف 22 لاکھ کے اشتہارات دیے گئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ حق و سچ کی اشاعت اور پاکیزہ صحافت کی روایات کے امین اخبار جسارت کو اب اپنے انتقام کا نشانہ بنایا ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کے فَسطائی دور حکومت، 70 کی دہائی میں جسارت پر مختلف بندشیں کی گئیں، جس کی ابتدا خبروں کے سنسر اور اس کے بعد اس کے مدیر اور پبلشر کی گرفتاری اور آخر میں اخبار کی بندش پر جا کر انتقام کی آگ بجھی۔ بظاہر تو اخبار کی بندش ہوئی لیکن جسارت نے جو حق بات کہنے کی روایت قائم کی اْس کی تپش ہمیشہ بھٹو اور پیپلز پارٹی محسوس کرتی رہی۔ اْسی زمانے میں پروفیسر غفور احمد جو قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر تھے اْن سے جب بھی معلوم کیا جاتا کہ جسارت کب نکلے گا وہ ہمیشہ ایک ہی بات کہتے تھے کہ جسارت اور بھٹو دونوں ایک ساتھ نکلیں گے، قلندر کی کہی ہوئی بات سچ ثابت ہوئی تھی، پیپلز پارٹی کے جبر اور اقتدار کی ظالمانہ سیاہ رات کا خاتمہ اور جسارت کے طلوع کا تابناک منظر ایک ساتھ وقوع پزیر ہوئے۔ آج بھی پیپلز پارٹی کا فَسطائی ذہنی اِختِراع اپنے انجام کو پہنچا ہے جب معاشرے کے چیدہ چیدہ باضمیر افراد، صحافیوں اور خود پیپلز پارٹی کی صفوں میں جسارت کے حق کو سچ کی بے باک ترجمانی کی شہادت نے پیپلز پارٹی کے ان ہتھکنڈوں کو شکست دی ہے اور بالآخر حکومت سندھ کو مجبور ہونا پڑا ہے کہ جسارت کو ریگولر اخبارات کی صف میں دوبارہ شامل کیا جائے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اب جسارت کے اشتہارات کے ساتھ وہ کیا معاملہ کرتے ہیں، بظاہر آثار اچھے نہیں ہیں، اس کا فوری ثبوت اسی ہفتہ کے 21 مئی کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں، والدین اور طلبہ کی توجہ کے لیے حکومت سندھ کے اسکول ایجوکیشن اینڈ لیٹریسی ڈپارٹمنٹ نے جو اشتہار دیا ہے وہ کئی اخبارات میں شائع کرایا گیا ہے، نہیں شائع کرایا گیا تو جسارت میں، آخر کیوں؟، جب کہ سب سے زیادہ طبقہ جو علم تعلیم اور اسکول سے متعلق ہے وہ جسارت کا بڑے پیمانے پر قاری ہے، آخر یہ تَفاوْت کیوں؟ پیپلز پارٹی نام ہے متعصب اور انتقامی ذہنیت کا جس کا اندازہ اردو انگریزی اور سندھی زبانوں میں شائع ہونے والے من پسند اخبارات اور ڈمی اخبارات پر نوازشات ہیں اور اس کا اصل چہرہ اظہر من الشمس ہو کر عوام کے سامنے آچکا ہے۔ جسارت نے اِسم بامْسَمّیٰ ہوتے ہوئے ظالم حکمرانوں کے سامنے حق بات کہنے اور اس پر قائم رہنے کی شہادت کی روایت کو قائم رکھا ہے۔ یہ پاکستان ہے اور یہاں سچ اور انصاف کی بنیاد پر کبھی بھی فیصلے نہیں ہوئے، اگر کہیں ہوئے تو اسے مکافات عمل کے علاوہ کچھ اور نام نہیں دیا جا سکتا، کسی بھی انجام بد سے محفوظ رہنے کی اور عافیت کی دعا ہر وقت کرنی چاہیے۔ بظاہر کسی مفاد کے تحت حکومت کے ساتھ رہنے میں اگر بھلائی ہے تو اِسے اکثر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے اپنایا ہوا ہے، لیکن جسارت نے تو ظلم و جبر کی حکمرانی کے مقابلے میں بَبانگ ِ دْھل حق و انصاف کی سر بلندی کا عَلَم اٹھایا ہوا ہے، اِسی آوازَہ کو بلند کرنے کو حدیث مبارکہ میں افضل جہاد قرار دیا ہے اور جسارت یہ آوازَہ بلند کرتا رہے گا۔