پاک چین دوستی زندہ آباد

530

پاکستان اور چین کے درمیان 21مئی 1951ء کو سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ پاکستان اور چین کے مابین لازوال دوستی کا سلسلہ گزشتہ 73 برسوں سے جاری ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دوستی مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے چین کو تسلیم کیا اِس سے پاکستان اور چین کے مابین نئے باہمی تعلقات کا آغاز ہوا جو دونوں ملکوں کے رہنماؤں اور عوام کی سطح پر مضبوط ہوتے چلے گئے دُنیا اور خطے میں سیاسی تغیرو تبدل سے بالا تر دونوں ملکوں کی دوستی پروان چڑھتی رہی جو دیگر ممالک کے لیے ایک مثال ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات ہر نشیب وفرار سے بالا تر مستحکم سے مستحکم تر ہوتے جا رہے ہیں یہ دوستی صرف دونوں ممالک کی حکومتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ دونوں ہمسایہ ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے سے گہری محبت اور پیار رکھتے ہیں۔ قدرتی آفات میں بھی دونوں ممالک نے دل کھول کر ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ پاکستان اور چین کی یہ دوستی نہ ختم ہونے والی دوستی ہے۔

5 جولائی 2013 کو چین اور پاکستان نے 46ارب ڈالر کی اقتصادی راہداری کی منظوری دی تھی۔ اِس منصوبے کے تحت بحیرئہ عرب پر واقع پاکستان کی گوادر بندرگاہ کو چین کے شہر کاشغر سے ملانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اقتصادی تعلقات کے علاوہ چین نے ہر بُرے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ 2005 میں چین میں زلزلہ اور 2008 میں پاکستان میں زلزلے کے وقت دونوں ملکوں نے وسائل سے بڑھ کر ایک دوسرے کی مدد کی۔ چین نے 2008 کے زلزلے میں پاکستان کے لیے 6.2ملین ڈالر کی امداد فراہم کی جبکہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب کمبل 3380 خیمے ودیگر سامان فراہم کیا گیا تھا جس کی مجموعی مالیت 20.5 ملین ڈالر تھی۔ اسی طرح چین میں مئی 2008 میں زلزلہ آیا تو حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں نے خیموں کمبلوں اور جان بچانے والی ادویات بھیجیں، اسی طرح 2010 کے سیلاب میں نقصانات کے ازالے کے لیے چین نے پاکستان کو 250 ملین ڈالر کی امدادی۔ یہ کسی بھی ملک کی طرف سے پہلی مرتبہ اتنی بڑی امداد تھی۔ پاکستان نے تائیوان، تبت ودیگر مسائل پر ہمیشہ چین کے اصولی موقف کی تائید کی۔ چین نے بھی پاکستان کی علاقائی سلامتی، آزادی اور حفاظت کے لیے کھلے دل کے ساتھ پاکستان کی حمایت کی اور مخلصانہ خود غرضی سے پاک مالی معاونت کے ذریعے پاکستان کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے حصول اور استحکام کے لیے پاکستان کی مدد کی۔

پاکستان اور چین کے تعلقات ہر نشیب وفرار سے بالا تر مستحکم سے مستحکم تر ہوتے جا رہے ہیں یہ دوستی صرف دونوں ممالک کی حکومتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ دونوں ہمسایہ ممالک کے عوام بھی ایک دوسرے سے گہری محبت اور پیار رکھتے ہیں۔ قدرتی آفات میں بھی دونوں ممالک نے دل کھول کر ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ پاکستان اور چین کی یہ دوستی نہ ختم ہونے والی دوستی ہے۔ آج چین پاکستان اقتصادی راہداری کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ تمام ہمسایوں کے مقابلے میں جو تعلقات چائنا کے پاکستان کے ساتھ قائم ہیں ان کی مثال پوری دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔ پاکستان اسلامی دنیا کا واحد اور جنوبی ایشیا ممالک میں بھارت کے بعد دوسرا ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا۔ دونوں ممالک ہمیشہ سے مضبوط اتحادی رہے ہیں۔ مثال کے طور پر 1965 اور 1971 کی جنگوں میں چین نے تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود بھارت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دیا۔ 1979 میں چائنا نے سوویت یونین کے خلاف پاکستان کی حمایت کی اور سب سے بڑھ کر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں بھی چائنا کا تعاون ہمیشہ پیش پیش رہا۔ 1972 میں چائنا نے پاکستان کے اصرار پر پہلی مرتبہ اپنی ویٹو پاور کو استعمال کر کے بنگلا دیش کو اقوام متحدہ کا رکن بننے کی مخالفت کی۔ 1971 میں پاکستان نے چین اور امریکا کے مابین سرد جنگ کو ختم کیا اور اس وقت کے امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہیزی کیسنجر کے چائنا وزٹ کو ممکن بنایا۔ جس نے نئے امریکا چائنا تعلقات کی بنیاد رکھی۔ 1989 میں تیانان من اسکوائر واقعہ پر پاکستان نے چائنا کی سپورٹ کی۔ اس کے علاوہ تجارت، بارڈرز اور ملٹری سطح پر پاکستان اور چائنا کے تعلقات منفرد سطح پر ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چائنا اور پاکستان کے اسپیشل تعلقات کو کس طرح سمجھا جا سکتا ہے؟ اور آخر کیوں دونوں ممالک نے پچھلے 73سال سے مستقل مضبوط سفارتی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں؟ اگر ہم ان دونوں سوالات کے جوابات سمجھنے میں کامیاب ہو گئے تو ہم پاکستان کی جنوبی ایشیا اور پوری دنیا میں اہمیت کو سمجھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے ہمیں چائنا کے متعلق بین الاقوامی رائے کو مد نظر رکھنا ہوگا۔ مثال کے طور پر دنیا کی سب سے زیادہ تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت ہونے کی وجہ سے چائنا پوری دنیا کے لیے اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آج صرف چائنا ہی ایسی طاقت ہے جو امریکا کے لیے درد سر بن سکتا ہے اور آنے والے دنوں میں چائنا دنیا کی سپر پاور ثابت ہوگا۔ اس لیے چائنا کے پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات کی اہمیت ملکی سطح کی بجائے بین الاقوامی اسٹرٹیجک سطح کی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ ماضی میں جھانکیں تو آپ کو علم ہوگا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد چائنا اور انڈیا کی مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں اہمیت بہت زیادہ ہوگئی تھی۔ جس کے نتیجے میں بھارت اور چائنا کے باہمی تعلقات اور ان دونوں ممالک کے امریکا اور سوویت یونین کے ساتھ سفارتی تعلقات کا پاکستان اور چائنا کے سفارتی تعلقات پر بہت گہرا اثر پڑتا تھا۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ سوویت یونین کی مخالفت کے باوجود بھی بھارت نے سویت یونین سے اپنے تعلقات کو ختم نہیں کیا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط بنایا ہے۔ دوسری طرف سوویت یونین کے خاتمے کے بعد بھی چائنا نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کے حوالے سے اپنی پالیسی نہیں بدلی۔ اس کے علاوہ چائنا اور انڈیا کی سرحدوں کے جھگڑے نے دونوں ممالک کے تعلقات پر گہرا اثر بھی ڈالا ہے۔ اور انڈیا اور سوویت یونین کے گہرے تعلقات چائنا کی آنکھ میں کھٹکتے ہیں۔ مزید براں یہ کہ 1969 کے بعد سوویت یونین اور چائنا کے تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں رہ سکے۔ اگر آپ ماضی کی بین الاقوامی سیاست میں جھانکیں تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت امریکا اور چائنا کے تعلقات مثبت سمت کی طرف گامزن تھے۔ اور دونوں ممالک نے پاکستان کے متعلق فارن پالیسی بھی یکساں ہی رکھی اور کھل کر سویت یونین کے خاتمے کے لیے پاکستان کو سپورٹ کیا۔ اس کے نتیجے میں 1996 میں طالبان نامی طاقت نے جنم لیا اور پھر 9/11ہو گیا جس نے دنیا میں سیاست اور اتحادیوں کا نقشہ بدل دیا۔

پاکستان کا جنوبی اور سینٹرل ایشیا میں کردار بہت اہم ہے اور خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے چائنا پاکستان کے کردار کا بین الاقوامی سطح پر معترف بھی ہے۔ اور تیسری سمت ون بیلٹ ون روڈ کا پروجیکٹ ہے۔ بھارت اس پروجیکٹ کی مخالفت کر چکا ہے۔ چائنا اس پروجیکٹ کے ذریعے دنیا کی اسی فی صد آبادی کو سڑکوں اور ریلوے لائنز کے ذریعے ملانا چاہتا ہے اور اس پروجیکٹ میں چائنا کا سب سے زیادہ انحصار پاکستان کی گوادر بندرگاہ پر ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر آپ کو اس نتیجے پر پہنچنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ جنوبی ایشیا خطے میں بھارت کے خلاف اپنی طاقت کو بیلنس کرنے کے لیے چائنا کو پاکستان کی ضرورت مسلسل محسوس ہوتی رہتی ہے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب کر کے چائنا خطے میں تنہا رہنے اور دنیا پر حکومت کرنے کے خواب کو چکنا چور کرنے کا رسک نہیں لے سکتا۔