سندھ، بلوچستان، پنجاب کی سرحدی تکون پر ڈاکوئوں کا راج ہے وہ شاہراہوں پر آکر لوٹ رہے ہیں، انسانوں کو اغوا کررہے ہیں اور کوئی ان کے اشارے پر گاڑی نہ روکے تو قتل کررہے ہیں۔ یوں ہی کلپر بگٹی قبیلے کے سردار کے فرزند عبدالرحمن اس نوگو ایریا سے گزر رہے تھے کہ وہ شر قبیلے کے مسلح رہزنوں کے اشارے پر نہ رکے تو ان شریروں نے گولی کی زبان میں بات کی اور یوں خون ناحق کا مزید نامہ اعمال میں اضافہ کرلیا۔ عبدالرحمن بگٹی کی ہلاکت کی خیر ان کے والد اور قبیلے کے سردار کو ملی تو انہوں نے سر پر باندھی پگھ اُتار کر رکھ دی اور کہا کہ جب تک وہ شر قبیلے سے اپنے فرزند کے خون کا قصاص نہ لیں گے ننگے سر رہیں گے۔ پھر وہ اپنے سیکڑوں مسلح افراد کے ساتھ سندھ سرکار کی معیت میں پولیس کی بکتر بند گاڑیوں میں سوار ہو کر کچے کے علاقے میں پہنچے اور شر قبیلے کے 2 افراد مار گرائے۔ یہ تو نہیں معلوم کہ وہ ہی فرزند کے قاتل تھے یا قبیلے شرکا ہونا ہی کافی سمجھا گیا اور پھر سردار کلپر بگٹی نے اس قصاص کے بعد پھر دستار سر پر سجالی۔
یہ کلپر بگٹی اور شر قبیلے کی لڑائی موضوع بحث ہے جو پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کا منفرد واقعہ ہے کہ قبیلے کے افراد ایک دوسری برادری پر چڑھ دوڑے اور حکومت نے جانا کہ چلو ہمارا کام جو ہمارا محکمہ پولیس 4 ارب روپے کے خرچ دکھا کر بھی نہ کر پایا وہ ہوجائے گا اور ڈاکوئوں کو بھی پیغام مل جائے گا کہ یوں بھی ہوسکتا ہے۔ اہل فکر نے جانا کہ یہ کچھ اس فرمان کی رو سے معرکہ آرائی ہوئی کہ ہم ظالموں کو آپس میں لڑا دیتے ہیں۔ کلپر بگٹی قبیلے نے اپنا بدلہ لیا تو کیا قانون اس لشکر کشی کی اجازت دیتا ہے؟ کیا اس کی اجازت یا چشم پوشی اس بات کا ٹھوس ثبوت نہیں کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ان چند درجن ڈاکوئوں کے سامنے سرینڈر ہوچکے ہیں اور ان سے نمٹنا ان کے بس کی بات اب نہیں رہی۔ پولیس کے جوان اور افسران کی کالی بھیڑیں تنخواہ سندھ سرکار کی لے کر ڈاکوئوں کی سہولت کاری کے کام آرہی ہیں۔ حال ہی میں ایسی کالی بھیڑوں کی نشاندہی بھی ہوئی ہے۔
کشمور جو ڈاکوئوں کا ہیڈ کوارٹر ہے چند درجن ڈاکوئوں جو جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح ضرور ہیں مگر ایسے بھی نہیں ہیں کہ ان کی کمر نہ توڑی جاسکے۔ مگر پھر کیوں ان کے خلاف موثر آپریشن نہیں کیا جارہا ہے، یہ کون سی مصلحت ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جو کشمور فتح نہیں کرسکتے وہ کشمیر کیا فتح کریں گے؟ اب اگر ایام جاہلیت کی طرح قبائلی جھگڑے نمٹانے کی روایت پروان چڑھی تو پھر ریاست کی رٹ کہاں برقرار رہے گی۔ ڈاکوئوں کے سرپرستوں کا خاتمہ ہی مسئلے کا حل ہے۔ جو ایوانوں میں بیٹھے ہیں جن کی لسٹیں حکومت کے اداروںکے پاس ہیں اور میڈیا میں بھی آچکی پر سندھی کی کہاوت ہے چور کو مت مارو چور کی ماں کو مارو تا کہ وہ چوروں کو جنم نہ دے۔
ڈاکو کلچر سندھ میں پرانا ہے۔ ’’وڈیرہ اور ڈاکو‘‘ سندھ میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہیں اور اب تو سیاست کا بھی سایہ ڈاکوئوں کے سر پر سایہ فگن ہے۔ کچے کے علاقے کی لاکھوں ایکڑ سرکار کی زمین پر قابض سیاست دانوں نے سرکاری عملداروں نے ان ڈاکوئوں کو پناہ دے کر نہ صرف اس قبضہ کو برقرار رکھا ہوا ہے بلکہ خود بھی خوب فصلوں کی کمائی کھا رہے ہیں اور ڈاکوئوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ اغوا کریں، لوٹیں اور جو مرضی میں آئے کریں کوئی ان کا بال بیکا نہ کرے گا۔ ہمارے دائرہ سے باہر مت نکلنا ورنہ مارے جائو گے۔ ایسا بھی ہوتا رہا ہے جس ڈاکوئوں نے بھی دائرہ کو پھلاندہ وہ مارا گیا سرکار کے ریکارڈ میں سب لکھا ہوا ہے مگر سیاسی مصلحت اور انجانے کا خوف ان کو کارروائی سے روکے ہوئے ہے، اب بدامنی کا علاج سرجری ہے میڈیسن نہیں۔