اکتوبر 1999 مارچ 2007 تک پرویز مشرف نے بڑے آرام بے فکری اور بھرپور اختیارات کے ساتھ دھڑلے سے حکومت کی ان کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں تھا انہوں نے 2002 میں جو عام انتخابات کروائے اس کے نتائج ان کی مرضی کے مطابق آئے۔ اس الیکشن میں کوئی ہیرا پھیری، دھاندلی یا کسی ادارے کی طرف سے کوئی انجینئرنگ نہیں ہوئی اگر کہیں ہوئی بھی ہوگی تو اس کا اتنا بڑا اسکینڈل نہیں بنا جیسا کہ 2018 کے انتخاب میں آر ٹی ایس Result Transfer System کے بیٹھ جانے کا مسئلہ سامنے آیا اور پھر 2024 کے انتخاب میں فارم 45 اور 47 کی بازگشت سیاسی فضاء سے تحلیل ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی بلکہ سابق نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے جس طرح حنیف عباسی کو یہ طعنہ دیا کہ آپ تو فارم 47 والے ہیں اس پر پی ٹی آئی عدالت میں جانے والی ہے کہ ایک ایسی شخصیت فارم47 کی بات کررہی ہے جس کی نگرانی میں یہ انتخابات ہوئے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ 9مئی سانحے کی سالگرہ یا برسی سرکاری سطح پر اتنے اہتمام سے منائی گئی اور پورے ملک میں اس حوالے سے ریلیاں نکلوائی گئیں اور برسر اقتدار لوگوں نے اتنی قوت سے اس موضوع پر بات اٹھائی کہ فارم 45 اور فارم47 والی بحث اس کے نیچے دب گئی۔ پھر ایک دن آئی ایس پی آر کی دھواں دار پریس کانفرنس اور دوسرے دن آرمی چیف کے بیان سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ اب پی ٹی آئی پر سختی کا دور شروع ہونے والا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کو ایک یہ خاموش پیغام دیا گیا ہے کہ آپ بھلے فارم 45 لیے گھر بیٹھے رہیں یا الیکشن ٹریبونل (جہاں تین چار سال بعد فیصلے ہوتے ہیں) میں چلے جائیں لیکن اچھے بچوں کی طرح آپ ہمارے بنائے ہوئے اقتداری بندوبست کو ڈسٹرب نہ کریں پارلیمنٹ میں چاہیں سخت اپوزیشن کریں کچھ مقدمات عدالت میں بھی لے جائیں توکوئی مضائقہ نہیں اس کے بدلے یہ ہوسکتا ہے کہ 9مئی کیس جہاں ایک سال سے التوا میں ہے وہاں دوتین برس اور بھی التوا میں ڈالا جاسکتا ہے۔ اور ہمارے پاس تو یہ بھی جادو کی چھڑی ہے کہ نئے انتخابات کرائے بغیر فارم 47 کے بجائے فارم45 کی حکومت بھی لائی جاسکتی ہے خیر یہ تو جملہ معترضہ تھے جو خیالات کے درمیان میں آگیا تو ہم نے سوچا کہ اپنے قارئین سے بھی شیئر کرلیں۔
2002 میں ہونے والے انتخابات کی تو بات ہوئی درمیان میں 2008 اور 2013 میں بھی انتخابات ہوئے ان دونوں انتخابات میں 2002 کی طرح بہت زیادہ دھاندلی کا شور نہیں مچا اس کی دو وجوہات تھیں پہلی تو یہ کہ 2008 میں پرویز مشرف کا زوال شروع ہو چکا تھا اس لیے انہیں الیکشن کے نتائج سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی اسی سے جڑی دوسری وجہ یہ تھی ایک سال قبل بے نظیر کا قتل ہوچکا تھا پورے ملک میں پیپلز پارٹی کی ہمدردی کی لہر نے نتائج پہلے ہی بتا دیے البتہ یہ ضرور ہوا کہ یہ انتخاب 2007 میں ہونا تھے لیکن بے نظیر کے قتل کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے اس انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اس وقت ن لیگ، تحریک انصاف، جے یو آئی فضل الرحمن گروپ اور جماعت اسلامی کا اتحاد بنا تھا جنہوں نے یہ اعلان کیا تھا لیکن پی پی پی دیکھ رہی تھی عوام میں اس کے حق میں ہمدردی کی زبردست لہر چل رہی ہے اس لیے وہ اس موقع کو ضائع کرنا نہیں چاہتی تھی اسی لیے آصف زرداری نے ایک بیانیہ پاکستان کھپے کا بنایا جسے قبولیت حاصل ہوئی حالانکہ پاکستان کھپے کی آڑ میں یہ انتخابات کھپے اور پھر اقتدار کھپے کا بیانیہ تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ انتخابات کے میدان میں وہ تنہا رہ گئے تھے اس لیے انہوں نے نواز شریف کو بائیکاٹ ختم کرنے پر آمادہ کیا اور نواز شریف نے اپنے ہی بنائے ہوئے اتحاد کے فیصلے سے انحراف کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا فضل الرحمن بھی خاموشی سے انتخابات میں چلے گئے لیکن جماعت اسلامی اور عمران خان نے الیکشن بائیکاٹ کیا۔ بہرحال مردہ بے نظیر زندہ بے نظیر سے زیادہ طاقتور ثابت ہوئیں اور پی پی پی یہ انتخاب جیت گئی اور آصف زرداری ملک کے صدر بن گئے۔
2013 کے انتخابات میں عمران خان کی سیاسی پوزیشن 2018 سے زیادہ مضبوط تھی ان کو بے حساب ووٹ ڈالے گئے لیکن الیکشن کے نتائج مرتب کرنے والی قوتوں نے پنجاب میں ن لیگ، سندھ میں پیپلز پارٹی اور کراچی میں ایم کیو ایم کو فتح دلوائی کراچی میں ایم کیو ایم کے ورکروں نے بڑی تعداد میں بلے کو ووٹ ڈالا لیکن اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کھلی چھوٹ ملنے کی وجہ سے پولنگ اسٹیشوں پر رات گئے تک ایم کیو ایم کا قبضہ رہا انہوں نے پتنگ کے جعلی ووٹ ڈالنے کے علاوہ بلے کے نشان کے لاکھوں ووٹوں کو ضائع بھی کیے۔ عمران خان نے اس انتخاب کو آر او کا انتخاب کہا کہ ن لیگ نے اپنی مرضی کے آر اوز رکھوائے جنہوں نے الیکشن جتوانے میں اہم کردار ادا کیے انہوں نے قومی کی چار نشستوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی بعد میں جب عدالت کے حکم سے ان نشستوں پر انتخابات ہوئے تو وہاں سے تحریک انصاف کامیاب ہوئی۔ بہرحال یہ انتخاب بھی دھاندلی کی گونج میں دبا رہا لیکن ن لیگ کی اس وقت سیاسی پوزیشن آج سے بہت بہتر تھی اگر شفاف انتخاب ہوتے تو ن لیگ ہارنے کے باوجود ایوان میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی۔
یہ مارچ 2007 کی بات ہے پرویزی اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا اس وقت کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ ایک سال بعد پرویز مشرف اقتدار سے محروم ہو جائیں گے پرویز مشرف جو چاہتے وہی ہوتا اور جیسا چاہتے ویسا ہی ہوتا اس میں ایک چاہت ان کی اسٹیل مل کو پرائیویٹ کرنے کی تھی ان کی اس چاہت کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا گیا مشرف کو قوی امید تھی کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے گا لیکن قدرت کچھ اور چاہ رہی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے اسٹیل مل کی نجکاری کے خلاف فیصلہ دیا اور فیصلہ دینے والے جج تھے افتخار چودھری۔ مشرف صاحب کو بہت غصہ آیا انہوں نے چیف جسٹس کو بلایا اور ان سے کہا کہ وہ اپنے منصب سے استعفا دیں لیکن انہوں نے انکار کردیا، بس اس انکار نے اس وقت کی فوجی حکومت کے خلاف ایک تحریک کو جنم دیا۔ اور یہ وہ تحریک تھی جس کی قیادت وکلا کررہے تھے اور عوام ان کے ساتھ تھے۔
ہمیں اس تحریک کی تفصیل میں نہیں جانا بتانا صرف یہ ہے کہ اسٹیل مل کی نجکاری کا مسئلہ پرویز مشررف کے زوال کا سبب بنی۔ دو تین روز قبل حکومت نے ان اداروں کی ایک فہرست جاری کی ہے جن کو آئندہ چار چھے ماہ میں نجی شعبہ کے حوالے کرنا ہے میں نے بہت تلاش کیا لیکن اس میں اسٹیل مل کا نام کہیں دکھائی نہ دیا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اسٹیل مل ایسی بدشگونی کی نشانی بن گئی ہو کہ جو حکمران بھی اسٹیل مل کی نجکاری کا سوچے گا اس کے اقتدار کو زوال کا سامنا کرنا پڑے گا حالانکہ پچھلے کئی ماہ سے بڑی شدت سے نجکاری کے حوالے سے اس کا نام آرہا تھا جبکہ اس کے بر خلاف کسی چینل پر یہ ٹکر چلتے ہوئے دیکھا کہ کابینہ کے اجلاس میں اسٹیل مل کے ملازمین کو کچھ ماہ کی تنخواہ دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔
اسٹیل مل کی کہانی بڑی دلچسپ ہے ہم اگلے مضمون میں یہ کہانی سنائیں گے اور ساتھ ہی تجاویز بھی دیں گے ہم کس طرح اس ادارے کو اب بھی منافع میں چلاسکتے ہیں۔ مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ ہمارے ملک میں دونوں تجربات ہو چکے ہیں یعنی نجی اداروں کو قومیایا بھی گیا ہے سرکاری اداروں کی نجکاری بھی ہوئی ہے ان دونوں قسم کے ایکشن سے پاکستان کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بڑے پیمانے پر اداروں کو جس میں تعلیمی ادارے بھی شامل تھے قومیایا گیا لیکن اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا اسی طرح پچھلے پندرہ بیس برسوں میں کئی اداروں کی نجکاری کی گئی اس عمل سے کچھ من پسند لوگوں کو تو فائدہ پہنچا لیکن عوام کو کوئی ریلیف نہ ملا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نیتوں کا مسئلہ ہے حکومتوں کی نیتیں بھی ٹھیک نہیں ہیں اور ان سرمایہ داروں کی بھی جو یہ ادارے لے رہے ہیں۔ کے الیکٹرک کی مثال سامنے ہیں اٹھارہ سال قبل جب اس کی نجکاری کا فیصلہ ہورہا تھا تو ایک معاہدے کے تحت بجلی کے نرخوں میں کچھ اضافہ صرف اس وجہ سے کیا گیا تھا کہ ملازمین کو بیروزگار نہیں کیا جائے گا لیکن ہم نے دیکھا کہ عوام نے بجلی کے اضافی بل بھی ادا کیے اور ہزاروں ملازمین کو ادارے سے نکال بھی دیا گیا اور حکومت کچھ بھی نہ کرسکی۔