آزاد کشمیر!! کم ازکم لیکن آخری نہیں

695

آزادکشمیر میں گزشتہ چند دن تک جو کچھ ہوا اس پر انگریزی کا محاورہ Least but not last صادق آتا ہے۔ اس تحریک میں عوام کی باڈی لینوئج، محاورے، نعرے، جوش وجذبہ مستقبل کی کتاب کا دیباچہ تحریر کر گئے۔ اس سے کوہالہ پار کے منصوبہ سازوں کو آزادکشمیر کے عوام کا مزاج موڈ اور مزاحمتی پوٹینشل سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اس ساری صورت حال کو سمجھنا کافی نہیں بلکہ مستقبل کی پالیسیاں اسی کو مدنظر رکھ کر تشکیل اور ترتیب دیا جانا لازمی ہو کر رہ گیا۔ آزادکشمیر میں بجلی کے ٹیرف اور آٹے کی سبسڈی کے مطالبات کے ساتھ سرزمین پونچھ کی تاجر برادری کی تحریک یوں قومی شعور اجتماعی مفاد اور حقوق کا سیل ِ رواں بن جائے گی کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ تحریک عین اس وقت کیل سے بھمبر تک بلکہ پاکستان اور بیرون پاکستان بسنے والے آزادکشمیر کے باشندوں میں ’’آزاد کشمیریت‘‘ اور ’’کشمیریت‘‘ کا احساس مضبوط کرے گی جب عمومی تاثر یہی ہے کہ پانچ اگست 2019 کے بھارتی فیصلے کے بعد آزادکشمیر کا وجود اور انتظامی اور جغرافیائی ڈھانچہ سڑی ہوئی سبزی کی طرح ناکارہ، غیر متعلق اور وقت کے کوڑے دن کا سامان بن کر رہ گیا ہے اور اب اس خطے کو قریبی علاقوں میں بانٹ کر کشمیر کی متنازع حیثیت کے اس ٹمٹماتے ہوئے آخری چراغ کو بجھا دیا جائے گا۔ جس کے بعد خلیج اور دوسرے ملکوں سے سرمایہ دار یہاں کی پہاڑی چوٹیوں اور معدنیات پر ہاتھ صاف کرنے جوق در جوق آنے لگیں گے۔

کسی ملک اور معاشرے میں سیاسی جماعتوں کا رول آگہی اور راہنمائی کے لیے اہم ہوتا ہے مگر آزادکشمیر کی سیاسی قیادت کے تعاقب میں فائلیں تھیں، وقتی مراعات دوبارہ ٹکٹ حاصل کرنے اور جیتنے کا شوق تھا سو یہ قیادت ’’کمپرومائزڈ‘‘ ہوتی چلی گئی۔ سیاسی قیادت اگر اعلیٰ درجے کی ہو تو وہ عوام کی قیادت کرتی ہے عوام کو اپنے پیچھے چلاتی ہے، اپنا اسیر اور گرویدہ بناتی ہے۔ ان کو ذات اور مفاد سے اوپر اُٹھ کر سوچنے پر آمادہ کرتی ہے۔ انہیں بڑے خواب دکھاتی ہے اور اس خواب کی تعبیر کے لیے انہیں قربانیوں پر آمادہ کرتی ہے اگر وہ عوام کی راہنمائی کے قابل نہ ہو تو کم ازکم پروپیپل بن جاتی ہے عوام کی رائے کے ساتھ چلتی ہے اور خود کو عوامی دھارے میں بہانے کا راستہ اپناتی ہے افسوس کہ آزاد کشمیر میں ایسی قیادت کا قحط پیدا ہوتا چلا گیا اور سیاسی قیادت مینجڈ اور کمپرومائزڈ ہو گئی۔ وہ نہ عوام کی راہنمائی کے قابل رہی اور نہ ہی پروپیپل بن کر عوامی شعور کے ساتھ منسلک ہو سکی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ غیر متعلق ہوتی چلی گئی اور گیارہ مئی کو آزادکشمیر کی سیاسی قیادت تاریخ میں پہلی بار حالات کی تماشائی اور مجبوریوں کی قیدی بن کر رہ گئی۔ عوام ایک طرف اور سیاست دان دوسری طرف جا کھڑے ہوئے۔

عوام اور سیاست دانوں کی دوری کا نتیجہ آج پاکستان کے حالات سے عیاں ہے۔ قومی انتخابات میں بھی اس کا مزہ چکھا جا چکا ہے اور یہ آزادکشمیر کے سیاست دانوں کے لیے نوشتہ ٔ دیوار ہے۔ سیاسی قیادت کو مینج کرنے کا مطلب یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ آزادکشمیر مستقبل کے نقشے اور منظر کے لیے مینج اور تیار ہو گیا ہے۔ یہ اندازے کی غلطی ہے جو دوبارہ دہرائی نہ جائے تو اچھا ہے۔ خلق خدا آزاد ہوتی آزادرو اورآزادمنش ہوتی ہے وہ سیاسی قیادت کے ساتھ روحانی پیشوا کی طرح جڑی نہیں رہتی۔ آزادکشمیر قومی منظر میں ایک بے وقعت خطہ ہے جس کو سیکورٹی کے زاویے سے دیکھنے کی عادت نے اسے غیر ضروری حد تک کنٹرولڈ بنا دیا ہے۔ کنٹرولڈ رہنے اور قیادت کے کمپرومائزڈ ہونے کی وجہ سے مسائل کے زخم ناسور بنتے جا رہے ہیں۔ آزادکشمیر کے عوام کو بدترین احساس محرومی نے جکڑ رکھا ہے۔ ایک طرف پہلو میں کنٹرول لائن کے پار کا علاقہ جو ترقی کی منزلوں سے آشنا ہونے جا رہا ہے تو دوسری طرف بیرونی دنیا میں بسنے والے آزادکشمیر کے لاکھوں باشندوں کا لائف اسٹائل قانون کی حکمرانی کی تعریف اور توصیف اور آزادکشمیر کے حالات پر ان کے جلے کٹے تبصرے آزادکشمیر کے عوام کے جذبات کوآتش فشاں بنائے ہوئے ہیں۔

بنیادی طور پر آزادکشمیر میں تاجر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے تحریک چند مقامی اور داخلی مسائل اور مطالبات سے شروع ہوئی مگر آگے چل کر تاجر جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا روپ دھار لیا اور اس کے مطالبات کا دائرہ کچھ وسیع ہوگیا۔ اس تحریک کا مجموعی رنگ انہی مطالبات کا عکاس رہا ہے مگر پونچھ میں اس تحریک نے ایک نظریاتی اور سیاسی انداز اپنالیا اور یہی وہ رنگ ہے جو مستقبل کے سیاسی کینوس میں اپنا جلوہ دکھاتا رہے گا۔ جس کا پیغام یہ ہے کہ آزادکشمیر کے سیاسی دانوں کو مینج کرنے کا مطلب عوام کو مینج کرنا نہیں اگر اس حقیقت کا احساس نہ کیا گیا اور مستقبل کے فیصلوں میں عوامی رائے کو شامل نہ کیا گیا تو آزادکشمیر کی سیاسی قیادت کا انجام وہی ہو سکتا ہے جو 8فروری کے انتخابات میں پاکستان کی بڑی اور بااثر سیاسی کلاس اور ان کے معاونین کا ہوا تھا جنہیں آخر کار عوامی استرداد کے باعث ’’فارم 47‘‘کے مورچے میں جا کر پناہ لینا پڑی۔ ایسے میں اندازے کی بدترین غلطی بھیانک نتائج کو جنم دے سکتی ہے۔ آزادکشمیر کا پوٹینشل یہ ثابت کرگیا یہ خطہ سڑی ہوئی سبزی نہیں بلکہ سری نگر کو سیاسی حقوق دلانے کے لیے آج بھی بہت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

گزشتہ دہائیوں میں اس خطے میں آزادکشمیریت یا کشمیریت کا ایک مشترکہ رشتہ مضبوط ہوا ہے۔ پونچھ کے نعرے، تقریریں، محاورے، انقلابی گیت اور نغمے سب حالات کی ایسی دوربین ہیں جس میں مستقبل کو دیکھنا چاہیے۔ آزادکشمیر کے لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے۔ ان کے وسائل کا فائدہ عام آدمی تک نہیں پہنچ رہا، ریموٹ کنٹرول قیادت کے ذریعے حالات کو کنٹرول کرنے کی فلاسفی اور حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے یہ حقیقت عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک نے بیان کر دی ہے۔ اس لیے موجودہ چند دن سے پیدا ہونے والے حالات بارش کا پہلا قطرہ ہیں اور ابھی ابر وباراں کے برسنے کے اصل مواقع اور ادوار آنا باقی ہیں۔ پہلی بار آزادکشمیر کے عوام اپنے حقوق کے لیے اس قدر متحد اور فعال نظر آئے۔ یہ جوش وجذبہ مستقبل میں بڑے کاز کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مودی آزادکشمیر کو حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے مگر یہ خواب کی تعبیر یوں اس کے گلے بھی پڑی سکتی ہے کہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام یونہی کھڑے رہیں اور کنٹرول لائن کی طرف چل پڑیں تو بھارت کو سری نگر اور جموں اُگلنا پڑسکتے ہیں اور اس خطے میں عوامی خواہشات کے تحت کوئی نیا انتظامی اور جغرافیائی ڈھانچہ بھی وجود میں آسکتا ہے۔