نیشنل مانیٹرنگ ایجنسی: ایک با اختیار ادارے کی ضرورت

448

یوں تو ملک میں متعدد ادارے اپنے اپنے حلقوں کے اعتبار سے اپنی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں جن میں سب سے موثر سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں ہیں جن کے دائرہ کار بھی متعین ہیں لیکن دائرہ اختیار میں کہیں کہیں رکاوٹ نظر آتی ہے۔ اب یہ بھی ایک سوال ہے کہ کوئی ادارہ بغیر اختیار کے کیا کام کر سکتا ہے اور اس کی کارکردگی کو جانچنے کا کیا پیمانہ ہو سکتا ہے کہ صدر مملکت یا چیف جسٹس صاحب اس ادارے کے سربراہ سے کیسے باز پرس کر سکتے ہیں جبکہ اس کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں، بہر حال ان قائمہ کمیٹیوں کے ہم پلہ ایک ایسی ایجنسی بھی قائم کی جانی چاہیے جو قومی نوعیت کے بہت سے معاملے میں حکومت وقت اور عوام یا متعلقہ ادارے کے ملازمین اور ذمے داران کے درمیان مضبوط رابطے کا کام کرسکے اور اس کے پاس کچھ اختیارات بھی ہونے چاہئیں تاکہ حکومت اور عوام یا ادارے کے ملازمین و ذمے داران کے درمیان انصاف پلڑا برابر رکھے اور جس کو بھی حق بجانب سمجھے اس کے حق میں فیصلہ کرے نہ صرف فیصلہ کرے بلکہ اس پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنائے۔

یہ ایسی ایجنسی حکومت وقت کو من مانی کرنے سے روکے اور ہر بڑے فیصلے سے قبل عوامی رائے، عوامی تشویش اور عوامی تجاویز کو مد نظر رکھنے کے لیے حکومت کو مجبور کر سکے۔ جیسے آج کل پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز کراچی کے حوالے سے عوامی حلقوں میں بڑی تشویش پائی جاتی ہے لوگ تجاویز بھی پیش کر رہے ہیں۔ ادارے کے اندرونی حالات بھی قوم کے سامنے لا رہے ہیں مگر چیف جسٹس سے لیکر وزیر اعظم تک کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں اور نہ عوام کو اہمیت دینے کو تیار ہیں بس بیرونی اشاروں پر یک طرفہ فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ ایسا بھی کوئی مضبوط اور با اختیار ادارہ بھی تشکیل دیا جانا چاہیے۔

پی آئی اے کی آمدنی میں اچانک 99کروڑ کا اضافہ ظاہر کردیا گیا کیا اپریل میں کبھی بیلنس شیٹ یا آڈٹ رپورٹ جاری ہوتی ہے، یہ وہی فراڈ ہے جب شاہد خاقان عباسی کے دور میں دو دو بیلنس شیٹ اوریجنل چھاپی گئی تھیں ایک منافع کی اور ایک خسارے کی جبکہ دونوں جھوٹ کا پلندہ تھیں۔ اچانک منافع کی چال بیرونی پارٹیوں کو پھر سے خریداری کے لیے راضی کرنا مقصود معلوم ہوتا ہے۔ باہر والے بھی ہوشیار ہوگئے ہیں کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہورہا ہے بیش تر پارٹیاں بھاگ گئیں۔ کمیشن اور کک بیکس کھانے والوں کو دن میں تارے نظر آگئے۔

مورخ لکھے گا کہ جب پی آئی اے کے لوگ حقائق کھول کھول کر بیان کر رہے تھے تو پی آئی اے انتظامیہ اور حکومت وقت منفی کردار ادا کر رہے تھے اور یک طرفہ فیصلے کر رہے تھے اس وقت لوگ چیلنج کر رہے تھے کہ پی آئی اے نقصان میں کبھی نہیں جا سکتی سارا نقصان جو صرف پانچ سو ارب کا ہے پورا کیا جا سکتا ہے جبکہ اشرافیہ مختلف حیلے بہانوں سے 2660 ارب سالانہ کھا جاتی تھی مگر پی آئی اے کو پانچ سو ارب نہیں دیتی تھی۔ حکمرانوں کے اندر اتنی سی بھی عقل نہیں ہے کہ 820 ارب کی مقروض پی آئی اے کو کیسے دنیا بھرکی کمپنیاں اور سرمایہ دار ہاتھ بڑھا بڑھا کر لینے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ وہ بھی تو اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے اقدامات کریں گے۔ تو وہ کام آپ خود کیوں نہیں کرسکتے۔

ان سب خریداروں کو پی آئی اے میں موجود اربوں روپے کمانے کی صلاحیت کا بخوبی اندازا ہے۔ لیکن آپ کی کوتاہ نظری فقط پانچ سو ارب پر ہی اٹکی ہوئی ہے۔ کتنے دن کھا لیں گے آپ یہ محض 500ارب روپیہ صبح سے شام نہیں ہوگی اور یہ ختم ہوجائیں گے اس کے بعد سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہ بچے گا۔