اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو خود کرتے نہیں ہو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے‘‘، (الصف: 2-3) نبی کریمؐ کا فرمان ہے: ’’میں اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ (مسندِ علم پرقابض) ایسے منافقوں سے محسوس کرتا ہوں جو چرب لسانی میں ماہر ہوں گے‘‘، (مسنداحمد) اور دوسری روایت میں ہے: ’’میں اپنی امت کے بارے میں مسند علم کے گمراہ کن قابضین سے بہت زیادہ خطرہ محسوس کرتا ہوں‘‘۔ (مسنداحمد) سیدناِ عمرؓ کا فرمان ہے: ’’عالم کی لغزش، منافق کا قرآن میں جھگڑنا اور گمراہ کن سرداروں کی حکومت اسلام کو ڈھادیتی ہے (یعنی لوگوں کے دلوں سے اسلام کی حرمت اور وقار اٹھ جاتا ہے)‘‘۔ (سننِ دارمی)
سیدنا اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں، رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا، پس اُس کی آنتیں آگ میں نکل رہی ہوں گی اور جس طرح کولہو کا گدھا چکی کے گرد چکر کاٹ رہا ہوتا ہے، وہ اپنی آنتوں سمیت جہنم کی آگ میں چکر کاٹ رہا ہوگا۔ پس جہنمی لوگ وہاں جمع ہوں گے اور کہیں گے: اے فلاں صاحب! آپ اس انجام سے کیسے دوچار ہوئے، آپ تو ہمیں نیکی کا حکم دیتے تھے اور برائی سے روکتے تھے، وہ کہے گا: ’’(بے شک) میں تمہیں نیکی کا حکم دیتا تھا، لیکن خود اُس نیک عمل سے عاری رہتا تھا اور میں تمہیں برائی سے روکتا تھا، لیکن خود اس برائی میں مبتلا رہتا تھا، (اس بنا پر میں اس انجام سے دوچار ہوا)‘‘۔ (بخاری) اسی ضمن میں رسول اللہؐ کا ارشاد گرامی ہے: ’’معراج کی رات مجھے (تمثیل کے طور پر) کچھ لوگ دکھائے گئے جن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا، میں نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں، انہوں نے کہا: یہ آپ کی اُمت کے خطباء ہیں، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں، حالانکہ وہ کتاب ِ (الٰہی) کی تلاوت کرتے ہیں توکیا وہ جانتے نہیں ہیں (کہ ان احکام کے وہ خود بھی پابند ہیں)‘‘، (شرح السنہ للبغوی) پس عملی طور پر دین کے داعی کو اپنے مقام ومرتبے کا پاس رکھنا چاہیے۔
مبلغ اور داعیِ دین کو ایسا اندازِ بیاں اختیار کرنا چاہیے جو نرمی، ہمدردی اور دل سوزی کا آئینہ دار ہو، اُسے شریں کلام اور نرم خوہونا چاہیے کہ ’’جو بات دل سے نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے‘‘ کا مصداق ہو، فارسی میں کہتے ہیں: ’’ازدل خیزد، بردل ریزَد‘‘، یعنی دل سے نکلے اور مخاطَب کے دل میں جاگزیں ہوجائے، نبی کریمؐ کا فرمان ہے: ’’نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اس کو زینت بخش دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نرمی نکال دی جاتی ہے، اسے بدصورت کر دیتی ہے‘‘۔ (مسلم) پس اگر داعی تند مزاج اور سخت کلام ہوگا تو لوگ اُس سے نفرت کرنے لگیں گے اور اس سے دور بھاگ جائیں گے، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ وہارونؑ کو فرعون کی طرف دعوتِ حق کے لیے بھیجا، اس کی رعونت کا عالَم یہ تھا کہ وہ خود کو ’’ربِ اعلیٰ‘‘ کہلاتا تھا، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے ان انبیائے کرام کو ہدایت فرمائی: ’’تم دونوں اس کے ساتھ نرم لہجے میں بات کرنا‘‘۔ (طٰہ: 44) کوئی شخص فرعون سے بڑا سرکش اورگمراہ نہیں ہوسکتا اور اللہ تعالیٰ کے انبیائے کرام سے بڑا مصلح اور داعیِ دین کون ہوسکتا ہے، اس کے باوجود جب سیدنا موسیٰ جیسے داعی کو فرعون جیسے انتہائی گمراہ شخص سے نرم لہجے میں گفتگو کرنے کا حکم ہے تو ہماشما کس گنتی میں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’(اے رسولِ مکرّم!) پس اللہ کی رحمت ہی کا فیضان ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے تِتّر بتّر ہو جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لیے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں، پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسا کیا کریں، بیشک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔ (آل عمران: 159)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کی نرم خوئی، خوش اخلاقی، حلم وبردباری، عفوو درگزر اور لطف ومہربانی کی اپنی عظیم رحمت ومہربانی قرار دیا ہے، یہی وہ خلقِ عظیم تھاکہ عرب کے لوگ جن میں آزادی کی حس خودسری تک پہنچی ہوئی تھی، دیوانوں کی طرح آپ کے گرد جمع ہوگئے، وہ اپنی گردنیں کٹانے کے لیے آپ کے اشارہ ابروکے منتظر رہتے تھے، اس کے برعکس اگرآپ تندخو، منتقم مزاج اور بات بات پر بازپرس کرنے والے ہوتے تو یہ سب آپ کو چھوڑ کو بھاگ جاتے اور اصلاحِ انسانیت کا جو عظیم ترین مشن آپ کے سپرد ہے، وہ انجام نہ دیا جاسکتا، اس سے معلوم ہوا کہ ایک مبلغ اور داعی کے لیے ترش روئی، سخت کلامی اور نازک مزاجی اس کی دعوتی اور اصلاحی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے، تشدد اور بداخلاقی سے دعوتِ دین کا کام انجام نہیں دیا جاسکتا۔
قرآن کریم انبیاء کی دعوت و تبلیغ اور کفار کے مجادلات سے بھرا ہوا ہے، اس میں کہیں نظر نہیں آتا کہ اللہ کے کسی رسول نے حق کے خلاف اُن پر طعنہ زنی کرنے والوں کے جواب میں کوئی ثقیل کلمہ بھی بولا ہو، اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا نوحؑ ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو دعوتِ حق دیتے رہے اور ان کی اصلاح و ارشاد میں دن رات مشغول رہے، مگر اس بدبخت قوم میں سے گنتی کے چند لوگوں کے علاوہ کوئی بھی قبولِ حق کے لیے آمادہ نہ ہوا، یہ قوم سیدنا نوح سے کہتی تھی: ’’ہم تمہیں کھلی ہوئی گمراہی میں پاتے ہیں‘‘۔ (الاعراف: 60) اس کے برعکس اس کے بجائے کہ سیدنا نوحؑ اس سرکش کی گمراہیوں، بدکاریوں کا پردہ چاک کرتے، فرمایا: ’’اے میری قوم! مجھ میں کوئی گمراہی نہیں میں تو رب العالمین کا رسول ہوں‘‘، (الاعراف: 61) یعنی میں تم لوگوں کو تمہارے فائدے کی باتیں بتاتا ہوں۔
(۲) ان کے بعد آنے والے دوسرے پیغمبر سیدنا ہودؑ کو ان کی قوم نے معجزات دیکھنے کے باوجود از راہِ عناد کہا: ’’ہم تو آپ کو بیوقوفی میں مبتلا سمجھتے ہیں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ آپ جھوٹ بولنے والوں میں سے ہیں‘‘۔ (الاعراف: 66) قوم کے اس دل آزار خطاب کے جواب میں سیدنا ہودؑ نے بجائے سخت بات کرنے کے بجائے صرف اتنا فرمایا: ’’اے میری قوم! میں بے وقوف یا کم عقل نہیں ہوں، میں تو ربّ العالمین کا رسول ہوں‘‘۔ (الاعراف: 67)
(۳) نبی کریمؐ جب دعوتِ دین کے لیے طائف تشریف لے گئے، اُنہوں نے آپ کو بے پناہ اذیتیں پہنچائیں، اس کے باوجود آپ نے اُن کے لیے دعائے ضرر کرنے کے بجائے فرمایا: ’’مجھے اللہ کی ذات سے اُمید ہے کہ ان کی نسل سے ہی ایسے لوگ پیدا فرمادے جو اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں‘‘۔ ( بخاری)
رشدوہدایت اور دعوتِ دین سے منسلک حضرات کو سامعین کی ذہنی وفکری سطح اوران کی فہم وفراست کے معیار کے مطابق گفتگوکرنی چاہیے، اس لیے کہ ہر ایک کی ذہنی صلاحیت اس معیار کی نہیں ہوتی ہے کہ وہ ہر بات کو سمجھ سکے، لہٰذا ہر بات خواہ صحیح اور درست بھی ہو، بتانے کی نہیں ہوتی، کیونکہ بہت سے لوگ اپنی کج فہمی اورکوتاہ علمی کی وجہ سے صحیح باتوں کی بھی تکذیب کردیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنے ربّ کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلائو اور ان سے اس طریقے سے بحث کرو جو سب سے اچھا ہو، بیشک تمہارا ربّ اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے‘‘۔ (النحل: 125) مفسرین نے ذکر کیا ہے: حکمت کا مطلب یہ ہے کہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت، استعداد اور حالات کو سمجھ کر نیز موقع و محل کی مناسبت سے بات کی جائے اور عمدہ نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ صرف دلائل پر اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ مخاطَب کو لگے کہ آپ اُس کے بہی خواہ اور ہمدرد ہیں، نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’لوگوں کے ساتھ ان کے مقام مرتبہ کے حساب سے برتائو کرو‘‘۔ (ابودائود) سیدنا علیؓ کا فرمان ہے: ’’لوگوں کے فہم وفراست کے معیار کے مطابق ان سے خطاب کرو، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول ؐکی تکذیب کی جائے‘‘۔ (بخاری) سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: ’’لوگوں کو ایسی حدیثیں سُنانا جو اُن کے فہم سے بلند ہوں، فتنے کا باعث ہے‘‘۔ (جامع بیان العلم) ۔۔۔(جاری ہے)