گھر میں نہیں دانے اماں چلی بھنانے

442

پاکستان آج کل غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ گندم کی امپورٹ کا اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ جبکہ ملک کے کسانوں نے گندم بمپر پیدوار کی ہے ان کی گندم کی خریداری کا کوئی منصوبہ ابھی تک کسی حکومت نے نہیں بنایا ہے۔ اس کے برعکس یہ نظر آتا ہے کہ اس اسکینڈل کے ذمے داروں کو دانستہ طور پر بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں نگران حکومتوں کے دوران کرپشن کے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں ان کی شدت بہت شدید ہوا کرتی ہے۔ اس سارے کھیل کی اصل ذمے دار نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے ایک ایسے موقع پر جب ملک میں غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کم تھے، گندم کی خریداری کا بہت بڑا سودا کر لیا۔ یہ جانتے بوجھتے کہ چند ہی ہفتوں میں پاکستان میں گندم تیار ہو جائے گی اور اس بار بڑے پیمانے پر گندم کی پیداوار ہوگی اور کسان بہت محنت کررہے ہیں گندم کی فصل لہلا رہی تھی اور مفاد پرست ٹولہ غیر ملکی گندم کا بھاری پیمانے پر سودا کررہا تھا اور ایک ارب ڈالر کے زرمبادلہ اندھے کنوئیں میں پھینک رہا تھا جس کا ایک بڑا حصہ یقینا ان کی جیبوں میں گیا ہوگا۔ یہ سب کچھ یہ جانتے ہوئے کیا گیا کہ جتنے عرصے میں باہر سے گندم پہنچے گی، اتنے ہی دنوں میں ملک کے اندر گندم تیار ہوچکی ہوگی یہ سب کچھ جانتے بوجھتے کیا گیا اور قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی گئی۔ اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی فوڈ سیکورٹی متاثر ہوئی یعنی غذائی تحفظ خطرے میں پڑ گئی۔ کسانوں کا حکومت پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے اب وہ کوئی ایسی فصل کاشت نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں پاکستان کا زرمبادلہ بچے۔ یہ تلخ حقیقت ہے پاکستان میں غذائی تحفظ کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔ صرف ایک وزارت بنا دی گئی ہے جس میں ایک بی اے پاس کو سیکرٹری تعینات کر دیا گیا ہے اللہ اللہ خیرسلا۔

پاکستان جو کہ دنیا بھر میں ایک زرعی ملک مشہور تھا اور ہے۔ جس کی خاص پیداوار میں گندم چاول کپاس اوردالیں تھیں۔ اب وہ اس میدان میں بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ یہ ہمارا دعویٰ نہیں ہے بلکہ عالمی اداروں کی رپورٹ بھی یہی کہہ رہی ہے۔ دوسری جانب ہمارے ملک میں سیاست دانوں کو آپس میں لڑنے سے فرصت نہیں ہے۔ بلکہ ایک جماعت تو پاکستان کے ایک ادارے کے ساتھ برسر پیکار ہے۔ اس سیاسی جماعت کی یہ جنگ بے مقصد نہیں ہے بلکہ وہ یقینا غیر ملکی طاقتوں کے اشارے پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے ایک سابق سینیٹر مشاہد حسین نے یہ کہا ہے کہ ٹرمپ اقتدار میں آ کر عمران خان کو رہا کروائیں گے اس سے پہلے انہیں حکومت خود ہی رہا کردے؟ کیا مشاہد حسین نے یہ بیان امریکی اشارے پر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ ملک میں مہنگائی کتنی ہے؟ توانائی کی کمی کتنی ہے؟ ملک میں زرعی اور صنعتی پیداوار ہو رہی ہے یا نہیں۔ کتنے گھروں میں آج چولہا جلایا نہیں؟ غذائی تحفظ یا فوڈ سیکورٹی دراصل چار باتوں کی ضمانت چاہتی ہے۔

1۔ خوراک کا موجود ہونا۔ 2۔ خوراک تک رسائی۔ 3۔ غذا کا استعمال اور اس کا ہضم ہونا۔ 4۔ غذائی تقسیم میں مساوات۔ فوڈ سیکورٹی کا سب سے بڑا دشمن اربنائزیشن ہے یعنی شہروں کا پھیلاؤ۔ پاکستان میں شہروں کے پھیلاؤ کی شرح جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے، جو 40 فی صد تک پہنچ رہی ہے۔ آبادی کے بڑھنے کی شرح، موسمیاتی تبدیلی، سیلاب، قحط، زلزلے سونامی وغیرہ غذائی عدم تحفظ کی وجہ بنتے ہیں۔ اگر غذائی عدم تحفظ ہو تو مجموعی طور پر قوم کی صحت پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ لیبر فورس میں بھی کمی آتی ہے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں اور کئی نفسیاتی بیماریاں بھی پھیلتی ہیں اس کے علاوہ جسم کمزور ہونے کی وجہ سے دیگر بیماریاں بھی حملے کرتی ہیں پاکستان میں آئے دن مختلف اشیاء کی قلت ہوتی رہتی ہے خاص کر آٹے کا بحران بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ لیکن اس کی عمومی وجہ آٹے کی پیداوار میں یا گندم کی پیداوار میں کمی نہیں بلکہ اسمگلنگ اور کرپشن ہوتی ہے اس وقت جو گندم کا بڑا اسکینڈل سامنے آیا ہے اس کے نتیجے میں یہ نہیں ہو سکتا کہ جو گندم درامد کی گئی ہے وہی برامد کر دی جائے اور یہ بتایا جا رہا ہے کہ کسانوں نے جو گندم اگائی ہے اب وہ اسے اونے پونے بیچ رہے ہیں۔ حالانکہ ان سے گندم لے کر اسے برامد بھی کیا جا سکتا تھا مگر برامد کنندگان اپنا منافع زیادہ سے زیادہ رکھنا چاہتے ہیں اس لیے انہوں نے یہ سودے بازی کی ہے۔

پاکستان میں غذائی قلت زیادہ تر مصنوعی ہوتی ہے اس کی وجہ صرف ذخیرہ اندوز ہوتے ہیں لیکن آج تک ان لوگوں کی کبھی گرفت نہیں کی گئی۔ کبھی کبھار یہ صورت حال سیلاب یا قحط کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو لیکن ایسا بہت کم ہوا ہے۔ غذائی قلت کا سب سے بڑا سبب ہمیشہ ذخیرہ اندوزی اور بدعنوانی اور بے ایمانی رہی ہے۔ گزشتہ دو تین سال سے سیلاب کو غذائی قلت کا سبب بیان کیا جاتا رہا ہے اور عالمی اداروں سے اس کی بنا پر رعایتیں بھی حاصل کی جاتی رہی ہیں۔ 1981 میں پاکستان میں گندم کی پیداواری صلاحیت 12 ملین ٹن تھی اور آبادی اس لحاظ سے کم تھی۔ ہماری غذائی ضروریات ملک ہی سے پوری ہو رہی تھیں۔ لیکن آج آبادی میں پہلے کی بہ نسبت 187 فی صد اضافہ ہوا ہے اور گندم کی پیداوار 28 ملین ٹن سالانہ رہی ہے۔ آج تک کسی حکومت نے یہ اندازہ نہیں لگایا کہ ہماری گندم کی چاول کی اور دالوں کی سالانہ ضروریات کتنی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے کبھی اندازہ نہیں لگایا گیا اور یہ بہت افسوسناک امر ہے اس لیے کہ اگر یہ اندازہ نہیں لگایا جاتا تو پھر ہم اپنی غذائی ضروریات کو کیسے پورا کریں گے بالفرض محال اگر خدانخواستہ کسی ملک سے جنگ ہو جاتی ہے تو پاکستان سب سے پہلے غذائی قلت کا شکار ہوگا کیونکہ کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں پر ضروری اشیاء کو اسٹور کیا جا سکے اور انہیں عوام تک بروقت اور بارعایت پہنچایا جا سکے۔

دنیا کے کئی ممالک میں کچھ اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کو سبسڈی کے ساتھ فروخت کیا جاتا ہے۔ تاکہ عوام کی صحت پر کوئی کمپرومائز نہ کیا جا سکے۔ عوام کے زندہ رہنے اور ان کے صحت مند رہنے کے لیے جتنی کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے وہ پوری کی جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں عوامی صحت کا تو خیال ہی نہیں رکھا جاتا۔ ایک عالمی سروے کے مطابق پاکستان کی 36.9 فی صد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ جبکہ یو ایس ایڈ کا سروے کہتا ہے کہ پاکستان کی 20 فی صد آبادی غذا کی کمی کا شکار ہے اور پانچ سال سے کم عمر کے 45 فی صد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں ان کی بڑھتی عمر کی ضروریات پاکستان میں نہیں پوری ہورہی ہیں۔ اور جن کی بڑھوتری فطری طریقے سے نہیں ہو رہی یعنی جس عمر میں ان کو جتنا صحت مند اور جتنا طاقتور اور جتنے قد کا ہونا چاہیے وہ نہیں ہو پاتے۔ دنیا کے 126 بھوکے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر کبھی 99 ہوتا ہے اور کبھی 101 ہو جاتا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے جیسا کہ ہم نے پہلے لکھا کہ کرپشن کی بنا پر پاکستان کے اندر غذائی قلت ہوتی ہے ایک طرف 36 فی صد آبادی کو مکمل طور پر یا صحیح طریقے سے کھانا میسر نہیں ہے۔ دوسری جانب 40 فی صد خوراک روزانہ ضائع ہوتی ہے یعنی 36 ملین ٹن کھانا ہر سال ضائع ہوتا ہے۔ کھانے کا یہ زیاں بڑے بڑے ہوٹلوں اور شادی بیاہ کے مواقع پر ہوتا ہے۔

مختلف ادوار میں جو سروے کیے گئے ان کے مطابق کبھی 36، کبھی 20 فی صد اور کبھی 43 فی صد پاکستانی باشندے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں اور 18 فی صد ان میں سے ایسے ہیں جو شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ہمارے ہاں جو عمومی خوراک تیار ہوتی ہے اس میں کیلوریز کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا ہے۔ ایک پاکستانی کی عمومی خوراک میں گندم، چاول اور سبزی وغیرہ شامل ہیں۔ گوشت کا حصہ بہت کم ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں متوازن غذا موجود نہیں ہے کہیں تو بے تحاشا کھانا ہے اور کہیں بالکل ہی غذائی قلت ہے اگر اس موقع پر حکومت نے فوڈ ایمرجنسی لگا کر اس پر کام نہیں کیا تو ہم ایک صحت مند قوم نہیں بن سکیں گے۔ ایک طرف تو ہم چاند پر اپنا سیٹلائٹ بھیج رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے ہاں خوراک کا یہ عالم ہے کہ لوگوں کے دو وقت کی روٹی صحیح طریقے سے میسر نہیں ہے اس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’گھر میں نہیں دانے اماں چلی بھنانے‘‘۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں زرعی ترقیاتی کونسل اور زرعی یونیورسٹیاں ریسرچ کر رہی تھیں تاکہ گندم چاول اور دالوں کی بہترین پیداوار ہو سکے اور پاکستان کی کپاس دنیا کی بہترین کپاس میں شمار کی جاتی تھی لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ ہر جگہ زنگ لگ گیا ہے اللہ خیر کرے۔