قوموں کی اجتماعی زندگی میں آئین سے زیادہ اہم دستاویز کوئی نہیں ہوتی کیونکہ آئین قوموں کی اجتماعی خواہشات اور مقاصد حیات کا ترجمان اور ان راستوں کی علامت ہوتا ہے جن پر چل کر اجتماعی خواہشات اور مقاصد حیات کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وطن عزیز اور اس کے لوگوں کی اس سے بڑی بد قسمتی کوئی نہیں ہے کہ ہمارے یہاں آئین سے زیادہ بے وقعت دستاویز کوئی نہیں۔ ہمارے فوجی حکمرانوں کا تو یہ حال رہا ہے کہ انہوں نے آئین کو بے توقیر کرنے میں ہمیشہ ایک دلی مسرت محسوس کی ہے۔ ایوب خان نے 1956ء کے آئین کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیا۔ ضیاء الحق نے 1973ء کے آئین کو ایک طرف تو نہیں پھینکا لیکن انہیں جب بھی موقع ملا، انہوں نے آئین کا مذاق اْڑانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ انہوں نے کھل کر کہا کہ آئین چند صفحوں کی دستاویز کے سوا کیا ہے؟ اور یہ کہ یہ دستاویز میری جیب میں پڑی رہتی ہے۔
آئین کو جیب میں رکھے پھرنے کا مفہوم پوری قوم اور پورے ملک کو جیب میں ڈال لینا ہے۔ کیا برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی آرزو، اقبال کا یہ خواب اور قائد اعظم کے ہاتھوں خواب سے حقیقت بننے والا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کے کروڑوں جفا کش لوگ حکمران طبقے کے باپ دادا کی جاگیر ہیں کہ وہ جب چاہیں انہیں اپنی جیب میں ڈال لیں؟ یہ ایک سفاک سوال ہے اور اس سفاک سوال کا جواب، سوال سے کہیں زیادہ سفاک ہے اور وہ یہ کہ نظری طور پر خواہ کچھ بھی کہہ لیا جائے لیکن ہمارے حکمران طبقے نے پاکستان اور اس کے کروڑوں لوگوں کو ہمیشہ اپنے باپ دادا کی جاگیر ہی سمجھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ہر باشعور اور حساس شہری نے ہر دور میں یہی محسوس کیا ہے کہ وہ ایک بے آئین ریاست کا باشندہ ہے۔
آئین کی بے توقیری، آئین کے خاتمے یا اس کی معطلی تک محدود نہیں۔ یہ نیک کام آئین کو برقرار رکھتے ہوئے اور رات دن آئین کے گن گاتے ہوئے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے سوال پر حکمرانوں نے ہمیشہ یہی کیا ہے۔ یہ بھٹو صاحب کا ایک کارنامہ ہے کہ انہوں نے ملک کو 1973ء میں دستور دیا لیکن یہ بھی انہی کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے اپنے اقتدار کے بیش تر عرصے میں اس آئین کو ہزار بار بے تو قیر کیا۔ اس کے بغیر وہ جبر معاشرے پر مسلط نہیں ہو سکتا تھا جسے عرف عام میں بھٹو گردی کہا جاتا ہے۔ کاش بھٹو گردی سول حکمرانوں کی آخری گردی ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور ملک و قوم کو بے نظیر گردی اور آصف گردی سے بھی گزرنا پڑا۔ یہاں تک کہ نواز گردی سے بھی۔
یادش بخیر جب جماعت اسلامی کی قیادت یہ مطالبہ کر رہی تھی کہ انتخابات کے بجائے احتساب کی راہ ہموار کی جائے اور اس کے بعد انتخابات کا ڈول ڈالا جائے اور اس مقصد کے لیے اہل اور دیانتدار لوگوں پر مشتمل عبوری حکومت قائم کی جائے تو سوال کرنے والے سوال کر رہے تھے کہ یہ مطالبہ آئین کی کسی دفعہ کے مطابق ہے۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں گزشتہ 76 سال میں آئین کے مطابق کیا ہوا؟ ماضی کو جانے دیجیے، حال ہی کو لے لیجیے، کیا ایک جمہوری حکومت کے دور میں فوجی عدالتوں کا قیام آئین کے مطابق تھا؟ کیا واپڈا کا فوج کے حوالے کیا جانا آئین کے مطابق تھا؟ کیا جعلی اسکولوں کے خلاف فوج کے ذریعے چلوائی گئی مہم آئین کے مطابق تھی؟ کیا اسٹیل مل، ریلوے اور دیگر اداروں کو فوج کے حوالے کرنا آئین کے مطابق ہوگا؟
ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب فراہم کیا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ فوج کو سول معاملات میں غیر معمولی طور پر ملوث کرنا آئین کے مطابق تو نہیں مگر ملک و قوم کے مفادات کے مطابق ہے۔ یہ فقرہ بظاہر سیدھا سادا ہے، لیکن اس کے کئی سنگین مضمرات ہیں۔ کیا اس فقرے کو پتنگ کی طرح فضا میں اُڑانے والوں کو معلوم ہے کہ اس فقرے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ ہمارا آئین تمام قومی مفادات کے تحفظ کی ضمانت نہیں دیتا۔ اس فقرے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ قومی مفادات کی تشریح و تعبیر آئین سے ہٹ کر بھی کی جاسکتی ہے اور جب یہ تشریح وتعبیر حکمران طبقہ کر سکتا ہے تو عام آدمی کیوں نہیں کر سکتا؟ تو کیا ہمارا حکمران طبقہ اس بات کے لیے تیار ہے کہ آئندہ سے عوام بھی قومی مفادات کی تشریح و تعبیر آئین اور قانون کو ایک طرف رکھ کر کرنے لگیں اور پھر اس کے مطابق جس طرح چاہیں اور جس بات پر چاہیں عمل کرنے لگیں۔ ظاہر ہے کہ نہ ایسا ممکن ہوا ہے اور نہ ہو سکے گا۔ کیونکہ عوام کا حال تو یہ ہے کہ وہ موٹر سائیکل پر ڈبل سواری تک نہیں کر سکتے اور کوئی ضابطے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے خود اس پر سواری کرنے لگتے ہیں۔
جب واپڈا فوج کے حوالے کیا گیا تھا تو ایک بات تواتر سے یہ کہی جارہی تھی کہ واپڈا ڈوب رہا ہے، اسے بچانا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ملک کا کون سا ادارہ ہے جو ڈوب نہیں رہا؟ سب سے بری حالت تو اس وقت وزیر اعظم کے عہدے اور پارلیمنٹ کی ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم کا عہدہ اور پارلیمنٹ بھی فوج کے حوالے کر دی جائے؟
ہمارا ایک المیہ یہ ہے کہ جب تک لوگ سرکاری ملازمت میں ہوتے ہیں تو وہ حکومتوں کے دباؤ پر آئین، قانون اور ضابطوں کی خلاف ورزیاں کرتے رہتے ہیں، لیکن ریٹائرڈ ہوتے ہی وہ الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب بن جاتے ہیں۔ پھر انہیں جمہوریت بھی عزیز ہو جاتی ہے۔ آئین کی پاسداری کو بھی وہ اہم سمجھنے لگتے ہیں اور قانون پر عمل کے بھی وہ قائل ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ تو افراد کا معاملہ ہے۔ تاہم اس وقت ہمارے سامنے افراد کی نہیں، ملک کے اہم ترین ادارے کی مثال ہے۔ بلا شبہ میاں نواز شریف یہ تاثر دینے میں پوری طرح کامیاب تھے کہ ملک کا ہر ادارہ ان کی گرفت میں ہے۔ وہ چاہیں تو عدالت عظمیٰ کے ججوں میں اختلاف پیدا کر سکتے تھے۔ چاہیں تو عدالت عظمیٰ کی عمارت پر کامیاب حملہ کر سکتے تھے۔ چاہیں تو بری فوج کے سربراہ کو مستعفی ہونے پر مجبور کر سکتے تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اتنے طاقتور ہو گئے تھیکہ ملک کے اہم ترین ادارے کو ایک سے زیادہ غیر آئینی اقدامات اور افعال میں پھنسا کر رکھ دیں؟ کیا ملک کا آئین اور ملک کا قانون ہم سے یہی کہتا ہے کہ حکومت وقت کا سر براہ جو کچھ بھی کہے، اسے تسلیم کر لیا جائے؟ اگر حقیقی صورت حال یہی ہے تو اس سے زیادہ تشویش کی بات کوئی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس صورت میں تو کسی فرد سے بھی یہ سوال نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کے سلسلے میں حکومت کا دباؤ کیوں قبول کیا اور اسے کیوں نہ بتایا کہ میں ریاست اور اس کے آئین کا پابندی ہوں حکومت کی خواہشات اور مقاصد کا نہیں۔