امریکا نے عراق اور افغانستان میں جس قدر وحشیانہ کھیل کھیلا ہے انسانیت کا سر شرم سے جھکانے کے لیے کافی ہے جبکہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم برسا کر اس نے لاکھوں معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا قتل کیا۔ عراق کی معصوم بچی عبیر قاسم کا یہاں ذکر کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس معصوم بچی کے گھر گھس کر امریکی فوجیوں نے اس کے ساتھ اجتماعی درندگی کی اور پھر عبیر سمیت اس کی والدہ، والد، بہنوں کو زندہ جلا دیا۔ عبیر کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ اس کے لیے نوبل پرائز کیوں نہیں۔ اب آئیے ذرا فلسطین پر نظر دوڑائیں۔
شہید کیے جانے والوں کی تعداد 31,726 ہے۔ زخمی 73,792 ہوچکے ہیں۔20,000 بچے اور 6,500 خواتین شہید کی گئیں۔ میڈیکل سے وابستہ 295 افراد شہید کیے گئے۔ 113 صحافی قتل کیے گئے۔19 لاکھ 55 ہزار بے گھر۔ 70,000 گھر تباہ کیے گئے۔ 187,300 گھر جزوی تباہ کیے گئے۔ یومیہ 362 افراد شہید کیے گئے فی گھنٹہ 15 اور فی منٹ ایک فرد شہید کیا گیا۔ 320 اسکول تباہ کیے گئے، ایک ہزار 6 سو 71 صنعتی ادارے تباہ کیے گئے، 23 اسپتالوں کو تباہ کیا گیا۔ ایک سو سے زیادہ ایمبولنس تباہ کر دی گئیں۔ 238 مساجد اور تین گرجا گھر جبکہ 170 پریس کے دفاتر تباہ کر دیے۔
یہ امر نہایت افسوسناک اور شرم ناک ہے کہ امریکا نے تیسری مرتبہ جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی 15 اراکین میں سے 13 نے جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیا جبکہ برطانیہ رائے شماری سے غیر حاضر رہا اور صرف ایک ملک امریکا اس قرارداد کو ویو کر کے یہ ثابت کر دیا فلسطینیوں کی نسل کشی میں ان کا بھرپور کردار ہے۔ اس کے علاوہ فلسطین کی اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت کے لیے پیش کی جانے والی قرارداد کو امریکا واحد ملک تھا جس نے ویٹو کے ذریعے اسے روک دیا۔ گویا امریکا ایک عالمی دہشت گردی کو فروغ دینے والا اور عالمی امن کے دشمن ملک کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جسے خود اپنے عوام کے احتجاج کی بھی فکر نہیں۔
امریکا کے امن پسند افراد جن کا تعلق ہر مذہب سے ہے وہ امریکی حکومت اور پالیسی سازوں کے ان انسانیت سوز اقدامات سے سخت نالاں ہیں۔ جس طرح امریکا نے افغانستان اور عراق میں درندگی کا مظاہرہ کیا اور اب جس طرح وہ اسرائیل کی وحشت و درندگی کا ساتھ دے رہا ہے، اس عمل نے اس کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے اور آئندہ کئی صدیوں تک امریکی نسلوں کے سر شرم سے جھکے رہیں گے۔
بھارت میں نہایت منظم طریقے سے عدالت عظمیٰ کی چھتری تلے کئی مساجد کو مندروں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ گائے ذبح کرنے کے شبہے میں مسلمانوں کو ہجوم کے ذریعے قتل کیا جا رہا ہے، بلقیس بانو ایک ہندوستانی مسلمان خاتون گجرات کی رہائشی ہیں۔ نریندر مودی جب گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو اس نے تین دن تک آر ایس ایس، بھارتیا جنتا پارٹی کے کارکنوں کو کھلی چھوٹ دے دی تھی کہ جس طرح چاہیں مسلمانوں کا قتل عام کریں، عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کریں، مسلمانوں کے کاروبار تباہ کر دیں ان کے گھروں کو آگ لگائیں۔ متاثرہ افراد میں بلقیس بانو بھی تھیں جو اس وقت حاملہ تھیں انتہا پسند درندوں نے انہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اس وقت ان انتہا پسندوں نے اس گھناؤنے فعل کو 2 ہزار لوگوں کی موجودگی میں سر انجام دیا۔ بلقیس بانو کے سات رشتہ داروں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور شہید ہونے والوں میں اس کی تین سالہ بیٹی بھی تھی۔ 2008ء میں ان گیارہ لوگوں کو گجرات کی ظالم اور متعصب حکومت نے رہا کر دیا اور حکمران جماعت کے وزراء اور ذمے داروں نے ان درندوں کو ہار پہنائے، مٹھائی کھلائی۔ یہ وہ دن تھا جب بھارت میں جشن آزادی کے موقع پر نریندر مودی عورتوں کے حقوق اور تحفظ پر بات کر رہا تھا۔
کرناٹکا کی ایک مسلمان لڑکی کو کالج میں انتہا پسند لڑکوں نے گھیر لیا۔ اس نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔ انتہا پسندوں نے اس مسلمان لڑکی کو کہا کہ اسے حجاب پہن کر کالج نہیں آنا چاہیے۔ اس واقعے کے بعد کرناٹکا کی عدالت نے کالجوں میں حجاب پہننے پر پابندی لگا دی، بھارت میں انڈیا سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ جسے ICAA کہا جاتا ہے کے نفاذ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کی حکومت نے اپنے آئین اور سیکولرازم کو دفن کر دیا ہے اس عمل میں اسے اس کی عدالتوں کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت کے متعدد ذمہ داروں نے متعدد مرتبہ رسول کریمؐ کی شان میں گستاخی کی اور بھارتی وزیر داخلہ امیت نے ان کی بھرپور تائید کی۔ فرانس کی حکومت نے اسلام دشمن عناصر جو مسلسل حضور اکرمؐ کی توہین کرتے رہے ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر حکومتی عمارتوں پر نبی اکرمؐ کے خاکے آویزاں کیے۔
ان تمام واقعات کے تناظر میں اسلامو فوبیا کو روکنے کے لیے مسلمانوں کی جانب سے منظم، مربوط اور متحد کوششوں کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں رسول اکرمؐ کی بحیثیت محسن انسانیت اور رحمت اللعالمین کی حیثیت کو اجاگر کرنا انسان دوست اور امن پسند غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات کو بڑھا کر ان کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر نفرتوں، تشدد اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے منظم جدوجہد کرنا، غیر مسلم اکثریتی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان ممالک میں فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، ان ممالک کے تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ وہاں کی حکومت اور سیاست میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش کریں اسلاموفوبیا کی مہم رکوانے کے لیے کوشش کریں۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے بعد اب ضروری ہو گیا ہے کہ تمام مسلمان ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کر دیں اور مکمل طور پر اس کا بائیکاٹ کریں۔ امریکا کے جس فوجی افسر نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے خود سوزی کی شاہراؤں کے نام بشنل ایرون کے نام پر رکھے جائیں اور ہر سال بشنل شہرون کے نام پر امن انعام کا اجراء کیا جائے۔