متناسب نمائندگی کا طریقہ انتخابات

625

متناسب طریقہ انتخابات دنیا بھر کے کئی ممالک میں نافذ ہے، اور اسے کئی ممالک میں نافذ مختلف النوع نظام ہائے انتخابات اور حکومت میں نسبتاً زیادہ منصفانہ اور زیادہ جمہوری سمجھا جاتا ہے۔ اس نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ایک تو اس میں ووٹ ضائع نہیں ہوتا، دوم اس میں پاکستان جیسے معاشروں میں سیاسی اور انتخابی نظام کے لیے زہر قاتل سمجھے جانے والے الیکٹبلز کو انتخابی وسیاسی نظام کو یرغمال بنانے کا موقع نہیں ملتا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعدادو شمار کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں ہمارے ہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد تقریباً 106 ملین تھی۔ ان رجسٹرڈ ووٹرز میں سے تقریباً 50 ملین نے ووٹ دیا جس کا مطلب ہے کہ تقریباً ہر دوسرے شخص نے اپنا ووٹ نہیں ڈالا اس طرح ان انتخابات کا مجموعی ٹرن آئوٹ 50فی صد سے بھی کم رہا جو دراصل موجودہ انتخابی نظام پر عدم اعتماد کا مظہر ہے۔ پاکستان کے 2018 کے عام انتخابات کے برعکس اگر ہم دیکھیں تو 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈالے گئے کل ووٹوں کی شرح 66.4 فی صد رہی، 2019 میں برطانیہ کے پارلیمانی انتخابات میں ووٹوں کا تناسب 67.3فی صد رہا، 2019 کے بھارتی عام انتخابات میں ووٹوں کی مجموعی شرح 67.4 فی صد رہی، 2018 میں برازیل کے عام انتخابات میں پولنگ کا تناسب 79.7 فی صد جب کہ 2017 کے فرانسیسی صدارتی انتخابات میں یہ شرح 74.6 فی صد رہی، ان انتخابی نتائج سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر جمہوریتوں پر ان ممالک کے ووٹرز کا اعتماد کس سطح کا ہے۔
یہ صورتحال پاکستان جیسی نوزائیدہ جمہوریت کے لیے تشویش کا باعث ہے کیونکہ 2018 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے جیتنے والے تمام امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کو ملا کر صرف 22 ملین ووٹ پول ہوئے تھے جس کا مطلب ہے کہ یہ منتخب نمائندے الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ 5 میں سے صرف 1 ووٹر کی نمائندگی کرتے تھے۔ اگر ان اعداد وشمار کی روشنی میں ہم 2018 کے انتخابات کے فوری بعد برسراقتدار آنے والی حکومتی پارٹیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ قومی اسمبلی میں ان جماعتوں کو صرف 12 ملین ووٹ ملے تھے جو کل رجسٹرڈ ووٹرز کا تقریباً 11 فی صد بنتے تھے یعنی ہمارے موجودہ انتخابی نظام کے تحت 10فی صد لوگ90فی صد لوگوں پر حکومت کرسکتے ہیں اور ایسا عملاً پہلے بھی ہوتارہا ہے اور اب بھی ہورہا ہے۔
یہ صورت حال ان ووٹرز کے موجودہ انتخابی نظام پر سے ان کا اعتماد اٹھانے کے لیے کافی ہے جنہوں نے برسراقتدار آنے والی جماعتوں کے بجائے دیگر جماعتوں کو ووٹ دیے ہوتے ہیں، اس صورتحال سے انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ اکثریت میں ہونے کے باوجود انتخابی عمل سے باہرکردیے گئے ہیں جس کا نتیجہ سیاسی فرسٹریشن اور مروجہ انتخابی نظام پر عدم اعتماد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ لہٰذا یہ صورتحال ہمارے ارباب اختیار کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ اس گمبھیر اور مایوس کن حالات سے قوم کو کس طرح نکالتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک بہترین اور قابل عمل مثال متناسب طریقہ ہائے انتخابات کی دی جاسکتی ہے جس میں نہ تو کوئی ایک بھی ووٹ ضائع ہوتا ہے اور نہ ہی یہ نظام اتنا پیچیدہ اور ناقابل عمل ہے کہ اس پر پاکستان جیسے پارلیمانی جمہوری ملک میں عملدرآمد ممکن نہیں ہے۔ درحقیقت متناسب ووٹنگ ایک ایسا نظام ہے جس میں جماعتوں کو انتخابات میں حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد کے تناسب سے نشستیں دی جاتی ہیں۔ متناسب طریقہ انتخابات میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ مقننہ میں تمام سیاسی نقطہ ہائے نظر کی نمائندگی موجود ہو، اس نظام میں نشستوں کی تقسیم رائے عامہ کی تقسیم کی عکاسی کرتی ہے۔ متناسب نمائندگی کے نظام میں ووٹر انفرادی امیدواروں کے بجائے کسی سیاسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں۔ اس نظام میں ہر پارٹی الیکشن سے پہلے اپنے امیدواروں کی ایک فہرست الیکشن کمیشن کو پیش کرتی ہے اور اس طرح پارلیمنٹ میں تمام جماعتوں کو حاصل کردہ ووٹوں کی مجموعی شرح سے پہلے سے جمع شدہ پارٹی فہرستوں کے مطابق نشستیں الاٹ کی جاتی ہیں، دلچسپ امر یہ ہے کہ اس نظام کے استحکام اور اسے معتبر بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں نمائندگی کے لیے ہر پارٹی کے لیے کم از کم 5فی صد ووٹ لینا لازمی ہوتا ہے۔
اس نظام کو پاکستان میں متعارف کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ یہاں پارٹی امیدواروں اور نام نہاد الیکٹبلز کی اجارہ داری کے بجائے صرف رجسٹرڈ پارٹیوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہوگی جس سے نہ صرف ووٹرز کو ووٹ ڈالنے میں آسانی ہوگی بلکہ وہ امیدواران کے بلند بانگ دعوئوں اور ان کے استحصال سے بھی بچ جائیں گے۔
ووٹوں کی گنتی کے بعد پارٹیوں کو حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں بعینہٖ اسی طرح نشستیں تفویض کی جائیں گی جس طرح آج کل خواتین اور اقلیتوں کو الاٹ کی جاتی ہیں۔ متناسب نظام کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے اگر ایک جانب پارٹیوں کی جان الیکٹیبلز کی بلیک میلنگ سے چھوٹ جائے گی تو دوسری جانب اس سے جمہوریت کی نرسریاں سمجھی جانے والی سیاسی جماعتوں کے پنپنے اور سیاسی استحکام کے امکانات بھی پیداہوں گے جب کہ اس نظام کا ایک اور مثبت پہلو انتخابی اخراجات میں کمی کی صورت میں بھی سامنے آئے گا۔