نومئی کا ماتم اور بارہ اکتوبر کا غم

592

نو مئی کی آمد آمد ہے۔ اس روح فرسا واقعے کی یادیں ذہنوں سے محو نہیں ہوئیں جب عدالت کے سامنے سرینڈر کیے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان کو فوجی کمانڈوز نے عدالت کے شیشے توڑ کر نہایت حقارت سے گرفتار کیا تھا اور اس واقعے کے خلاف ردعمل نے پرتشدد رنگ اختیار کیا تھا۔ مظاہرین کا رخ فوجی تنصیبات یا دفاتر کی طرف ہو گیا تھا۔ ان میں سب سے اہم واقعہ لاہور کے کورکمانڈر ہائوس میں آتشزدگی اور توڑ پھوڑ تھا اور اس دوران ملک بھر میں کئی درجن اموات ہوئیں تھیں جن میں تمام لوگ احتجاج کرنے والوں کا حصہ تھے۔ سال بھر سے نو مئی ملک سے غداری اور بغاوت کے استعارے کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ ملک کی تاریخ ایسے ہر واقعے کی طرح کچھ وقت کے لیے ہی سہی نو مئی سے پہلے اور نو مئی کے بعد کے دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ گزشتہ برس ستمبر میں جنرل پرویز مشرف کے عہد کے ایک نمایاں سویلین کردار واقف ِ حال اور سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی نے نو مئی کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک جملہ کہا تھا کہ نوازشریف طیارہ سازش کیس نو مئی جیسا ہی واقعہ تھا جس میں طیارہ اغواء کرکے بھارت میں اُتارنے کی بات ہو رہی تھی۔ سابق وزیر اعظم پر اس سنگین مقدمے کے باوجود غداری کا مقدمہ نہیں چلا اور وہ نہ صرف اس صورت حال سے نکل گئے بلکہ تیسری بار وزیر اعظم بھی بن گئے۔ محمد علی درانی کے اس انٹرویو پر جو اے آر وائی چینل پر چلا تھا کہیں سے کوئی مخالفانہ اور تردیدی تبصرہ نہیں ہوا حتیٰ میاں نوازشریف کے کسی ترجمان نے بھی اس موازنے کو غیر منصفانہ قرار نہیں دیا۔

نومئی کی روح فرسا یادیں اپنے ساتھ بارہ اکتوبر کی تلخ کہانی بھی لاتی رہے گی جب بارہ اکتوبر کو پاکستان کے دوتہائی اکثریت رکھنے والے وزیر اعظم میاں نوازشریف کی حکومت کا تختہ اس الزام کی بنیاد پر اُلٹ دیا گیا کہ انہوں نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے کے جہاز کو پاکستان کے کسی ائر پورٹ پر نہ اُترنے دینے اور جہاز کو بھارت لے جانے کے احکامات جاری کیے تھے اور یہ وہ وقت تھا جب کارگل جنگ میں استعمال ہونے والے بارود کی بُو ماحول میں پوری طرح رچی بسی تھی اور ایسے میں اپنے کمانڈر انچیف کو بھارت کی طرف دھکیلنا بغاوت بھی تھی اور ان کی جان کو خطرے میں ڈالنے والا معاملہ بھی تھا۔ اس سے پہلے نوازشریف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرکے ان کی جگہ جنرل ضیاء الدین کو راجا بازار کے ہی سہی مگر تمغے پہنا چکے تھے۔ نوازشریف پر بغاوت کا مقدمہ تو قائم نہیں ہوا مگر بغاوت کے مقدمے کی تلوار ان کے سر پر لٹکا دی گئی اور بیگم کلثوم نواز نے نوازشریف کے جیل سے نکل کر بیرون ملک جانے کا راستہ اسی خوف کو قبول کرکے اور اسے بڑھا کر اختیار کیا۔ مجھے یاد ہے کہ نوازشریف رہائی کی طوفانی مہم کے دوران ایک پریس کانفرنس کے بعد انہوں نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ وہ میاں صاحب کو بھٹو بنانے کی دھمکی دے رہے ہیں اس وقت ان کی جان بچانا ضروری ہے۔ بارہ اکتوبر کی کہانی کا مرکزی خیال طیارہ سازش کیس تھا اور ہم چونکہ نو مئی سے زیادہ بارہ اکتوبر والی نسل سے ہیں اس لیے طیارہ سازش کیس کے ساتھ اس دور کے ہر قلم کار کی طرح ہماری بھی دلچسپ یادیں وابستہ ہیں۔

یہ بارہ اکتوبر چار بجے کا وقت تھا میں اسلام آباد کے ملوڈی علاقے میں ایک نیوز ایجنسی میں شام کے شفٹ انچارج کی حیثیت سے اپنے کرسی سنبھال چکا تھا۔ کی بورڈز پر کمپوزروں کی انگلیاں رقص کرکے سکوت کو توڑ رہی تھیں اور فیکس پر خبریں وصول ہونے کی آواز ایک کی بورڈ سے قطعی الگ آواز پیدا کر رہی تھی۔ ملک کے وزیر اعظم اور آرمی چیف میں کھٹ پھٹ کی خبریں زوروں پر تھیں اور دونوں اپنا اپنا دائو کھیل رہے تھے۔ چند ہی دن پہلے نوازشریف نے اپنا دائو کھیلتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف کے ساتھ ساتھ چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی ٹوپی پہنا کر اپنی طرف سے مفاہمت کا ہاتھ بڑھانے کا اشارہ دے دیا تھا۔ بارہ اکتوبر کو جسارت میں اسی صورت حال پر اور اسی پس منظر میں میرا کالم ’’اور مفاہمت ہوگئی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ چار بجے کے بعد پیدا ہونے والی ہلچل میں ہمارے ایک دوست معروف اسکالر اور دانشور سردار طاہر تبسم نے کوئی خبر فیکس کرنے کے بعد مجھے فون کیا کہ خبر بھیج دی ہے مگر ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کو میاں صاحب نے فارغ کر دیا۔ اس کے بعد نیوز روم میں تبصروں اور تجزیوں اور نئی خبروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مجھے اپنے کالم ’’اور مفاہمت ہو گئی‘‘ میں اندازے کی غلطی پر کچھ افسوس ہورہا تھا۔ شام ہور رہی تھی اور ٹرپل ون بریگیڈ کی گاڑیاں شاہراہ دستور کا کنٹرول سنبھال رہی تھیں۔ خبروں کی بھرمار میں سر کھجانے کی فرصت نہیں رہی اور جب معاملات کچھ کھل گئے تو ہم نے شاہراہ دستور کا چکر لگانے کا فیصلہ کیا۔ ہر طرف مسلح افواج تھیں۔ پی ٹی وی جو جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کی خبر نشرکر چکا تھا محاصر ے میں تھا اور سامنے بالائی منزل پر یوسف بیگ مرزا کچھ اس انداز سے ٹہل رہے تھے کہ جیسے وہ گیٹ پر کسی کو پیغام دے رہے ہیں اب فکر نہ کریں میں ہوں ناں۔ نواز شریف اس وقت پنجاب میں مقبول تھے پختون خواہ اور بلوچستان سمیت تمام قوم پرست جماعتیں ان کی اتحادی تھیں۔ بھاری مینڈیٹ ان کی جیب میں تھا مگر عام پاکستانی کے لیے سب سے تکلیف دہ بات طیارہ ہائی جیکنگ تھی۔ یہ تو ہمارے سپاہ سالار کو بھارت کی جھولی میں ڈالنے والی بات تھی۔ اخبار کی اس دور کی فائلوں کا رخ کروں تو کم ازکم دس یا پندرہ کالم تو میں نے بھی اسی بیانئے کے زیر اثر لکھے ہوں گے۔

برطانیہ کے اخباروں میں چھپنے والے روگ آرمی کے اشتہارات کی کہانی بھی پاکستان میں پہلے یوں پہنچی کہ جس روز یہ اشتہارات شائع ہوئے برمنگھم برطانیہ سے ایک درد مند پاکستانی اور حساس دل کشمیری جناب محمد غالب نے ایک اشتہار اپنے آنسوئوں میں بھگو کر اس نوٹ کے ساتھ ہمیں فیکس کیا کہ آج برطانیہ کے اخباروں میں یہ اشتہار شائع ہوا ہے۔ میں نے ایڈیٹر اوصاف حامد میر صاحب کو یہ اشتہار اپنے اضافی نوٹ کے ساتھ فیکس کیا۔ صبح انہوں نے اپنے کالم میں اس کا تذکرہ کیا اور اس کے بعد اس کی ساری تفصیل آنے لگی۔ وقت کا پہیہ گھومتا چلا گیا۔ میاں نوازشریف ذوالفقار علی بھٹو بن جانے یا بنا دیے جانے کے خوف سے بیرون ملک سدھار گئے جنرل پرویز مشرف ہنسی خوشی حکومت کرنے لگے۔ اس وقت کا سب سے خطرناک طیارہ سازش کیس عدالتی فائلوں میں موجود رہا مگر اب وہ پروں پر اُڑنے کے بجائے بوسیدہ سے ٹائروں پر گھسٹ رہا تھا۔ وقت یونہی گزرتا چلا گیا اور ایک دن معلوم ہوا کہ طیارہ سازش کیس کی فائل ہی عدالت سے گم ہو گئی ہے۔ یہاں تک کہ جمعہ جولائی 2007 کی وہ پرسعادت گھڑی آگئی جب عدالت عظمیٰ کے سربراہ جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا کہ سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کو طیارہ سازش کیس میں بری کیا جاتا ہے کیونکہ استغاثہ یہ ثبوت پیش نہیں کر سکا کہ میاں نوازشریف نے بطور وزیر اعظم پرویز مشرف کے جہاز کا رخ موڑنے کے احکامات دیے تھے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے عدالت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔

میاں نوازشریف کے ترجمان صدیق الفاروق نے اس فیصلے کا خیرمقدم تو کیا مگر اسے حق اور سچ کی فتح کہنے سے نجانے کیوں گریز کیاـ؟ ہمارے لیے خوشی کا پہلو یہ تھا کہ ایک سویلین حکمران بری ہورہے تھے مگر قلق اپنے دس برس ضائع ہونے کا تھا کہ کس طرح ہم میاں نواز شریف کو دنیا کا انوکھا ہائی جیکر سمجھتے رہے جس نے زمین پر بیٹھ کر فضاء میں محو پرواز جہاز کا اغوا کرکے دنیا میں جہازوں کے اغوا کی تاریخ کو ہی بدل ڈالا ہو۔ دس سال بعد ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے اس کہانی کو جو بغاوت، غداری اور سزائے موت جیسے خوفناک موڑ اپنے اندر رکھتی تھی افسانہ قرار دیا۔ ہر پاکستانی کی دلی خواہش تھی کہ نو مئی کے کردار اس بار بچنے نہ پائیں مگر کور کمانڈر ہائوس کی جانب رواں دواں قافلوں میں ایک گاڑی کے اوپر بیٹھی عندلیب عباسی آزاد ہوگئیں اور گاڑی کے اندر بیٹھی خدیجہ شاہ مہینوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہیں اور اب بھی عدالتوں میں ماری ماری پھر رہی ہیں۔ یوں معاملے کی سنگینی کو ایک پریس کانفرنس کے دوخانوں میں بانٹ کر کمزور کرنے کا عمل روزِ اوّل سے جاری ہے۔