گندم کا بحران

565

معاصر جریدہ روزنامہ دنیا کے مطابق 30 اپریل کو پنجاب بھر میں امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر کسانوں کے مطالبات کے حق میں مظاہرے کیے گئے جن سے جماعت اسلامی کے مرکزی ذمہ داران اور قائدین نے خطاب کیا۔ ملک اس وقت گندم کے بحران میں مبتلا ہے۔ چند لوگوں کی تجوریاں تو بھر گئی ہیں، لیکن کسان اور کاشت کار رْل رہے ہیں۔ گندم کا ذخیرہ پہلے سے موجود تھا پھر اس سال گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی اس کے باوجود 30 لاکھ ٹن گندم نگران حکومت کی منظوری سے غیر ضروری درآمد کی گئی، جب کہ ملک میں ڈالر کا کال پڑا ہوا ہے، قومی خزانے کو اتنا بڑا نقصان پہنچانے والوں کا احتساب کون کرے گا؟ اب حکومت کے پاس نہ ذخیرے کے لیے جگہ ہے اور نہ کاشت کار اور کسان سے خریداری کی شروعات، اس کے نتیجے میں پنجاب میں مقرر سرکاری قیمت خرید 3900 روپے فی من کے بجائے 2500 روپے فی من تک گرتی ہوئی یعنی 1400 روپے فی من کم قیمت میں کاشت کار اور کسان اپنی گندم اوپن مارکیٹ میں بیچنے پر مجبور ہیں، جبکہ کاشت کار اور کسان حکومت کے خریداری کے مقرر کردہ نرخ پر مطمئن بھی نہیں، گری ہوئی قیمت پر فروخت کرنے میں وہ فصل پر کیے اخراجات ہی پورے نہیں کر پارہے ہیں۔ کاشت کار اور کسان اگر گندم فروخت نہ کریں تو موسم کی نا ہمواری کی وجہ سے اور بارشوں کی وجہ سے کس طرح گندم کی حفاظت کر پائیں گے؟ صورتحال کے مجموعی نتیجے میں وہ بہت بڑے نقصان سے دوچار ہو رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ آئندہ وہ گندم کی کاشت میں دلچسپی ہی نہ لیں۔ سر دست یہ بحران اس وقت تو گندم کے ذخیرہ میں اضافے کا بحران ہے، خدانخواستہ آنے والے سال ہم گندم کے ذخیرہ کی کمی کے بحران کا شکار نہ ہو جائیں۔
اگر دیکھا جائے تو دنیا بھر میں گندم کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور اسی حوالے سے انتظامات بھی کیے جاتے ہیں، دور کیوں جائیں سعودی عرب کی مثال لے لیں، 80 کی دہائی میں سعودی عرب نے اپنے کاشت کاروں کو گندم کی پیداوار کے حوالے سے سہولتیں فراہم کیں، کاشت کاروں نے حکومتی منصوبہ میں دلچسپی لی اور نتیجے میں سعودی عرب گندم برآمد کرنے والا ملک بن گیا۔ 2008 میں ایک شاہی فرمان کے تحت بتدریج 2016 تک گندم کی پیداوار صفر کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ کاشت کاروں سے کہا گیا کہ 2016 کے بعد حکومت ان سے گندم نہیں خریدے گی اور اس کے لیے باقاعدہ ہر سال ساڑھے 12 فی صد پیداوار میں کمی کا ہدف مقرر کر کے کاشت کاروں کو باقاعدہ مطلع کر دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ گندم کی فصل کو زیر زمین پانی سے آبپاشی کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ذخائر میں کمی آرہی تھی۔ سعودی عرب میں دستیاب 80 فی صد پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس پانی کا زیادہ دارو مدار زیر زمین ہے جو کہ پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے اتنا پائیدار نہیں۔ اس وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ سعودی عرب 100 فی صد درآمدی گندم پر انحصار کرے گا، اس کے ساتھ ساتھ کاشت کاروں کو دوسری فصلیں جو منافع بخش بھی تھیں اور جن میں پانی کا استعمال گندم کی کاشت کے مقابلے میں تین گنا تک کم تھا ان فصلوں کی کاشت کی رہنمائی کی گئی۔ حکومتی سطح پر پڑوسی ملک مثلاً سوڈان یا پھر پاکستان میں بھی سعودی زرعی کمپنیوں کے قائم کرنے اور وہاں گندم کاشت کر کے درآمد کی منصوبہ بندی کی خبریں بھی آئیں، خیر یہ تو سعودی عرب کی اپنی حکمت عملی تھی لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ مملکت سعودی عرب گندم کی متعین پالیسی کے حوالے سے کاشت کاروں کو بروقت مطلع کرتی رہی۔ اب سعودی عرب نے گندم کی کھپت میں اضافے کا تخمینہ لگایا ہے، اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ ملٹی بلین ڈالر میگا پروجیکٹس کی 2030 تک تعمیر اور بحر احمر پر لگژری ریزورٹس اور دیگر دلچسپیوں کی وجہ سے وزیٹرز کی تعداد 2030 تک 150 ملین ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ان منصوبوں اور دیگر منصوبوں پر کام کرنے والے مزدوروں کی بڑی تعداد، زائرین اور سیاحوں کی آمد کے نتیجے میں گندم کی کھپت میں اضافہ متوقع ہے۔ اس وقت رضاکارانہ، محدود نوعیت اور متعین رقبوں پر چھوٹے کاشت کاروں کے لیے باقاعدہ منصوبہ اور متعلقہ وزارت کے اجازت ناموں کے تحت گندم کی کاشت کی جا رہی ہے، المختصر یہ کہ گندم کی کاشت کے حوالے سے متعلقہ وزارت اور حکومتی ادارے کاشت کاروں کی بروقت رہنمائی کرتے ہیں تاکہ مملکت سعودی عرب بھی اور کاشت کار بھی کسی مشکل کا شکار نہ ہوں، وقت سے پہلے تمام ضروری اقدامات کر لیے جائیں، مسائل کا حل ڈھونڈ لیا جائے اور کاشت کار بھی خوشحال رہیں۔ ہم سب کے علم میں ہے کہ سعودی عرب افرادی طاقت اور بعض دیگر معاملات میں خود کفیل نہیں ہے۔ پاکستان، الحمدللہ نہ یہاں افرادی قوت کی کمی ہے اور نہ ہی فنی لحاظ سے کسی چیز کی محتاجی، پھر کیا وجہ ہے کہ سعودی عرب اپنی زرعی پالیسیوں پر تو دور رس نظر رکھ سکتا ہے اور پاکستان نہیں۔
اگر بد انتظامی دیکھنی ہو تو پاکستان اس وقت اپنی مثال آپ ہے۔ اتنا علم تو ہر شخص کو ہوتا ہے کہ اس کے گھر کے ریفریجریٹر اور فریزر میں کتنے گوشت اور سبزیوں کی گنجائش ہے اسی حساب سے وہ خریداری کرتا اور غذا کا ذخیرہ کرتا ہے۔ ازراہ تَفَنّْن اس وقت ذہن میں وہ تصویر آ رہی ہے جب بقر عید کے موقع پر ایک خریدار سوزوکی میں ایک گائے کو لے کر جا رہا ہے، سوزوکی میں گائے کے ساتھ کارٹن پیک ڈیپ فریزر بھی جارہا ہے اور دوسری طرف خواب میں ایک قربانی کرنے والا اپنے بکرے سے کہہ رہا ہے کہ تم اب تک جنت میں نہیں گئے اور جواب میں بکرا کہتا ہے کہ گزشتہ سال کی قربانی میں کی گئی اس کی ایک ران ابھی تک اس کے ڈیپ فریزر میں موجود ہے۔
اناج اور اجناس بشمول گندم کے ذخیرہ کو محفوظ کرنے کے حوالے سے اتنا بڑا محکمہ قائم ہے جو ’’پاسکو‘‘ کے نام سے قوم کے لیے سرکردہ زرعی خدمات کی فراہمی، حفاظت خوراک، کسانوں کے لیے خوشحال مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے قائم اپنے ہیڈ آفس، دو رابطہ دفاتر اور مختلف شہروں میں قائم 15 زونل دفاتر اور اتنے ہی عدد زونل ذمہ داران کے تحت کام کر رہا ہے، کئی دہائیوں کا ذخیرہ اندوزی کا تجربہ اور فوج موج ظفر کا کیا مصرف ہے؟
واقعتا دیکھا جائے تو موجودہ سیاسی چپقلش اور حکمرانی کی میوزیکل چیئر سے سرکردہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو موقع ملے تو وہ کسان اور کاشت کار کی آواز بنیں۔ فارم 47 سے جنم لینے والی حکومت پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے جماعت اسلامی کا نام لیے بغیر سیدھا سیدھا یہ کہہ دیا کہ ایک مخصوص جماعت گندم کے معاملے کو سیاسی رنگ دے رہی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اپنی نا اہلی کو سیاسی مخالفت کے نام پر مخالفین کے سر ڈال دیا جائے۔ جب عوامی دباؤ کے نتیجے میں معاشرے میں حکومت کے خلاف کوئی رد عمل جنم لیتا ہے تو میڈیا کے سہارے یہ سیاستدان اپنے بچاؤ کی کوشش کرتے، کہیں کا ملبہ کہیں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، حکمرانوں کا وتیرہ اب تک یہی رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی پنجاب میں آٹے کے بحران کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے رعایتی قیمتوں کا اعلان ہوا اور اس کے نتیجے میں لوگوں کو لائنوں میں لگا کر نہ صرف ان کی عزت نفس کو مجروح کیا گیا بلکہ بھگدڑ کے نتیجے میں بے شمار لوگ زخمی بلکہ کئی اموات بھی ہو گئیں، یہ تو وہ حقائق ہیں جو ساری دنیا میں طشت از بام ہیں۔ حالیہ خبر کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے اضافی گندم کی درآمد کے حوالے سے تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ سے علٰیحدہ ہو کر جیسا کہ پہلے تحریر کیا جا چکا ہے اس خدشہ کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ پیدا کردہ حالات کے نتیجے میں آئندہ برس ہماری گندم کی پیداوار میں اللہ نہ کرے کمی واقع ہو جائے، اور گندم کی درآمد کی ضرورت پیش آجائے، جس کا واحد اور بنیادی سبب کسان اور کاشت کار کو اس کی محنت کا پھل نہ ملنا اور اسے خسارہ سے دوچار کرنا ہوگا۔ کرپٹ عناصر کو بلا ضرورت درآمدی اجازت نامہ سے نوازنے کا یہ گھناؤنا کھیل نہ جانے کب تک جاری رہے گا؟