پی آئی اے کو بچانے کا واحد راستہ

688

بوئنگ 777 کو اونے پونے بیچ دیا جائے کیونکہ بوئنگ کمپنی کا اب بد ترین جہاز پی آئی اے کی غلام انتظامیہ اور غلام مشرف نے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول کے ایک ٹیلی فون کی دھمکی پر خریدا تھا اس جہاز کی مینٹیننس اس کی کمائی اور لیز سے کئی گنا زیادہ ہے اکثر دو تین جہاز گراؤنڈ رہتے ہیں جس کے اخراجات الگ۔ جسے کہتے ہیں کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ یہ بد ترین جہاز بہت سی کمپنیوں نے لیکر واپس کردیا تھا اور خریداری کا معاہدہ منسوخ کردیا تھا۔ یہاں چونکہ ملک دشمن مخصوص لابی بہت مضبوط ہے جس نے حکومت اور انتظامیہ کو یہی جہاز لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ جس دن سے ٹرپل سیون جہاز پی آئی اے کے بیڑے میں شامل ہوا ہے اس دن سے پی آئی اے کا بیڑا غرق ہونا شروع ہوگیا۔ یہ کوئی ہوائی باتیں نہیں ہیں۔ آج سے بیس بائیس سال پہلے جب پی آئی اے فلیٹ کی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا تو سب سے پہلے ایک غلط کام یہ کیا گیا کہ پی آئی اے کی ساؤتھ ایشیا میں امتیازی حیثیت کے حامل بوئنگ 747 جمو کو فلیٹ سے نکالا گیا حالانکہ یہ جہاز فیول فرینڈلی ہونے کے ساتھ مسافر اور مال برداری کے کام بھی آتا تھا۔ جس سے وقت اور ایندھن کی بڑے پیمانے پر بچت ہوتی تھی۔ آج تک کسی کو اس تباہ کن فیصلے کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکا۔ اس سے بھی زیادہ ملک دشمنی یہ کی گئی کہ جب جمبو جیٹ جہاز تبدیل کیے جارہے تھے تو مارکیٹ سے سڑے ہوئے بوسیدہ جہاز صرف کمیشن اور کک بیک کی خاطر پی آئی اے کے بیڑے میں شامل کیے جا رہے تھے جو کسی بھی حوالے سے سیفٹی کے معیار پر پورے نہیں اترتے تھے اتنے ناکارہ جہاز کہ ایک دفعہ کیتھی پیسیفک سے لیز پر لیا گیا جہاز اتنا ناکارہ تھا کہ دوران پرواز جہاز کے کاک پٹ میں لگی چھت کا پورا پینل کھل کر لٹک گیا اگر کپتان کے سر پر گرتا تو آپ خود اندازہ لگا لیں کپتان کا کیا حشر ہوتا اور مسافروں کی جانوں کو کون بچاتا۔
یہی نہیں پی آئی اے کے ایک اور کماؤ پوت جہاز ائربس 300B4 کو بھی آناً فاناً بڑی خاموشی سے ٹھکانے لگا دیا گیا۔ یہ وہ اکنامیکل جہاز تھا جس پر مینٹیننس کے اخراجات بہت کم آتے تھے کیونکہ اس کے اسپیئر پارٹس بڑی تعداد میں پی آئی اسٹورز میں دستیاب تھے اور اس کی مینٹیننس کے لیے ڈالر میں یورپ سے پرزے منگوانے میں ڈالر اور وقت کی بہت بچت ہوا کرتی تھی اسے بھی پی آئی اے فلیٹ سے نکال دیا گیا اسی طرح اندرون ملک اور مڈل ایسٹ کی پروازوں کے لیے بہتریں بوئنگ 737 جہاز بڑی خاموشی سے نکال دیا گیا۔ اب باری آتی ہے فوکر جہاز کی جس نے پی آئی اے کی پچاس سال خدمت کی اسے بھی ATR جیسے بیکار جہاز سے تبدیل کردیا گیا ہر شخص جانتا ہے کہ اے ٹی آر جہاز یورپ کے موسم کے مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے اور ایشیا کے لیے کارآمد نہیں مگر اندھا بانٹے ریوڑیاں، کے مصداق اسے بھی پی آئی اے کا بیڑا غرق کرنے کے لیے بیڑے میں شامل کر لیا گیا جس کی کمائی اور لیز+ مینٹیننس کا تناسب آج تک کسی کو نہیں معلوم ہوسکا۔ جمو جیٹB747 کو یہ کہہ کر نکالا کہ پرانے ہوگئے تھے مگر جو ناکارہ B747 اس کی جگہ لیے وہ کیا کمپنی سے نیو برانڈ لیے گئے تھے وہ تو ہمارے جہازوں سے زیادہ تھکے ہوئے مکڑیوں کے جالوں سے اَٹے ہوئے کسی جنگل سے اُٹھا کر پی آئی اے کے فلیٹ میں داخل کردیے گئے اس کی بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ کون سے ملک اور پی آئی اے دشمن عناصر اس گھنائونے کھیل میں شامل رہے ہیں۔
مضمون کی طوالت سے بچنے کے لیے بات کو یہیں روک کر ایک تجویز پیش کی جاتی ہے کہ: پی آئی اے کو بچانا ہے تو بیس سال سے پی آئی اے کا خون چوسنے والے B777 کو فوری طور پر اونے پونے داموں بیچ دیا جائے کیونکہ اس کی تباہی کاریاں رکنے والی نہیں ہیں اس لیے کہ اس کے پرزے پی آئی اے کے پاس نہیں ہیں اور کسی دوسرے جہاز کے پرزے اس میں استعمال ہی نہیں ہو سکتے۔ اس کا کارگو گولڈ بہت چھوٹا ہے کارگو دستیاب ہونے کے باوجود اٹھانے سے قاصر رہتا ہے اس کے پیلٹ کنٹینر ایسے ڈیزائن کیے گئے ہیں جو صرف اسی جہاز پر ہی استعمال ہو سکتے ہیں اس کے کنٹینر اسپیس میں اتنی بھی گنجائش نہیں کہ دوسرے جہازوں کے کنٹینر سما سکیں اگرچہ کہ پی آئی اے کے پاس جمبو اور ائربس کے کنٹینرز موجود ہیں مگر بیس سال سے ناکارہ پڑے ہوئے ہیں یہ کوئی معمولی رقوم کا اثاثہ نہیں ہے اربوں کی مالیت کا اثاثہ ہے مارکیٹ میں پتا کر لیں پلیٹ+ کنٹینرز کی قیمتیں کیا ہیں اور اللہ کے فضل و کرم سے پی آئی اے کے پاس سیکڑوں کی تعداد میں موجود رہتے تھے۔
آپ یقین جانیے اگر خدانخواستہ خاکم بدہن پی آئی اے کسی ٹھیکیدار کے پاس جاتی ہے تو وہ سب سے پہلے یہی اقدامات کرے گا جو ہم تجویز کر رہے ہیں کہ: صرف اور صرف پانچ سو سے ایک ہزار روپے کی معمولی انویسٹمنٹ سے اتنا تو ہم روز چائے، سگریٹ میں ہی اڑا دیتے ہیں، چھے جہاز مسافر اور تین جہاز کارگو کے، پی آئی اے کے بیڑے میں شامل کر دیں۔ آپ جانتے ہیں کہ جہاز کیش پیمنٹ پر نہیں آتے یہ لیز پر آتے ہیں مطلب جہاز سے آپ کماتے جائیں اور لیز ادا کرتے جائیں۔ اور بہتر ہوگا کہ ائربس کمپنی کے A330 اور A340 جہاز جن کا معاہدہ بھی تقریباً ہو چکا تھا اسی معاہدے کو فائلوں سے نکال کر میز پر رکھ دیا جائے اور ائربس کمپنی کو مذاکرات کی دعوت دی جائے۔ کیونکہ پی آئی اے کی تاریخ بتاتی ہے کہ ماسوائے B777 اور ATR جہازوں کے پرانے فلیٹ کے جہاز مسافر دوست، کارگو دوست اور سب سے بڑھ کر پی آئی اے دوست ثابت ہوئے ہیں۔
اس سازش کی بھی تحقیقات کی جائے کہ وہ کون سے سیاستدان بیوروکریٹس ٹیکنو کریٹ تھے جنہوں نے پی آئی اے کے بہترین جہازوں کو نکال کر ناکارہ جہاز پی آئی اے کی بیڑے میں شامل کیے اسی دن سے پی آئی اے کا بیڑا غرق ہونا شروع ہوگیا تھا۔