عالمی دن منا کر ذمے داری سے بری!!

476

ہمارے حکمران یکم مئی کو یوم مزدور منا کر اپنی جملہ ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ کیا مزدوروں کا صرف عالمی دن منا کر ریاست کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے؟ جی ہاں یہاں عملاً تو ایسا ہی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ مزدوروں پر زندگی کا دائرہ تنگ کردیا گیا ہے اور کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ آئین اور قانون میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق سے بھی مزدور محروم ہیں لیبر اور سماجی بہبود کے قوانین پہلے ہی ناکافی ہیں یہ تمام مزدور مسائل کا احاطہ ہی نہیں کرتے لیکن ان پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا ٹریڈ یونینز زوال کا شکار ہے اس کی مسلسل حوصلہ شکنی کی جارہی ہے اور اس میں نام نہاد مزدور راہنماؤں کا بھی حصہ ہے۔ ساڑھے سات کروڑ لیبر فورس میں سے پونے چھے کروڑ دہاڑی دار مزدور تو یوم مزدور کے موقع پر بھی چھٹی سے محروم رہتے ہیں۔

لیبر قوانین، سوشل سیکورٹی، EOBI اور ورکرز ویلفیئر فنڈ کا نفاذ پچیس (25) سے پینتیس (35) لاکھ لیبر پر ہے اور وہ بھی مکمل نہیں ہے اس تعداد کو بھی کرپشن کی وجہ سے ٹریڈ یونین کی پاداش میں دہشت گردی کے مقدمات، پولیس گردی کا سامنا ہوتا ہے۔ سوشل سیکورٹی،EOBI ورکرز ویلفیئر فنڈ کی مکمل مراعات نہیں ملتیں ان اداروں کے اہلکار ایک مافیا کی طرح مزدوروں کا حق ہڑپ کررہے ہیں کم ازکم اُجرت موجودہ کمرتوڑ ہی نہیں گردن توڑ مہنگائی کے تناسب سے انتہائی کم ہے لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا مستقل ملازمتیں نہیں دی جاتیں ٹھیکیداری نظام کے ذریعے مزدوروں کو تمام قانونی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے اور وفاق اور صوبوں میں لیبر کی وزارتیں اور متعلق حکومتی اداروں کے اہلکار ظالموں کا ہتھیار ہیں جس سے مزدوروں کا معاشی قتل کیا جاتا ہے جبکہ ان اداروں کا اصل کام مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے اور لیبر قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے اور یہی حال لیبرکورٹس کا ہے جہاں مالکان کی شنوائی اور مزدور کی ٹھکائی ہوتی ہے اسی مقصد کے لیے ریٹائرڈ اور سفارشی ججوں کو تعینات کیا جاتا ہے کہ مالکان کے ظلم کو جواز بخشا جاسکے۔ مزدوروں کے ساڑھے چار کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں خاکم بدھن یہ ہے پاکستان کا بھیانک مستقبل ہے سرکاری ملازمین کو پنشن گریجویٹی سے محروم اور بوڑھے پنشنروں کو اذیت دینا یہ ملک کی معیشت کو عالمی مالیاتی اداروں کے حوالے کرنے کا ثمر ہے۔

ایک زمانہ تھا کبھی سہ فریقی لیبر کانفرنس ہوا کرتی تھی اب اسے ہوئے اتنا عرصہ گزر گیا ہے کہ لوگ اس اصطلاح کو ہی بھول گئے ہیں۔ اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے ترقی کرنی ہے تو اپنی زراعت جس پر ملک پچاس فی صد آبادی کا انحصار ہے پر توجہ دینا ہوگی اور صنعت کو ترقی دینا ہوگا جس کے بغیر آگے بڑھنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اس کے لیے سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ ذہنیت سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے اس کو دفنائے بغیر ترقی نہیں کی جاسکتی ترقی کا یہ تصور درست نہیں ہے کہ ایک طرف ساری دولت سمیٹی، محلات، اعلیٰ تعلیم اور عیاشیوں کا سامان کیا جائے اور دوسری طرف جھونپڑے ہوں، غربت اور بھوک ناچ رہی ہو، پھولوں سے خوبصورت اور معصوم بچے گندگی کے ڈھیروں سے رزق تلاش کرتے ہوں اس کو بدلنا ہوگا۔ مزدوروں کے حقوق اور فلاح وبہبود کو یقینی بنانا ہوگا اس کے لیے یوم مزدور کے اس موقع پر فی الفور ایک سہ فریقی (بلکہ اسٹیک ہولڈرز) لیبر کانفرنس منعقد کرکے لیبر قوانین کی بہتری، مکمل سماجی بہبود کے اجراء اور اس کے مکمل اور موثر نفاذ کے لیے لائحہ عمل اور ایک ایکشن پلان بناکر عمل درآمد کرنا ہوگا تاکہ مزدوروں کے لیے باوقار روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ کم ازکم اُجرت اتنی کہ ضرویات زندگی بھی میسر ہوں اور تعمیر وترقی کے لیے صحت مند مزدور بھی سب کے لیے سماجی بہبود کا تحفظ بھی ہو بچے تعلیم اور علاج سے محروم نہ ہوں اور اپنی چھت میسر ہو ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے اصولوں پر عمل تاکہ کام کی جگہ کا ماحول حفاظتی آلات کی فراہمی سے زندگی اور صحت کی حفاظت یقینی بنائی جاسکے اور مزدور اور مالک کے درمیان بھائی بندی کا رشتہ مستحکم ہو کہ جس سے ترقی اور ویلفیئر کا امتزاج پیدا ہو اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے تصورات کو درست کریں ترقی اثاثے بیچنے کا نہیں اثاثے بنانے کا نام ہے حکمرانوں نے ماضی میں سیکڑوں اداروں کو فروخت کیا اور اعلان کیا تھا کہ اس سے ہم ملک کا قرضہ اتاریں گے یہ صنعتی ترقی کا پیش خیمہ ہے اور اس سے بے روزگاری ختم ہوگی لیکن بدقسمتی سے ملک مزید ناقابل برداشت قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا، بے روز گاری اور غربت وافلاس نے ڈیرے ڈال دیے البتہ ترقی ٔ معکوس کا سفر جاری ہے اور اب قومی اداروں کے ساتھ تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کی نجکاری بھی کی جا رہی ہے اس سے جہالت اور بیماری میں ہی اضافہ ہوگا یہ تو صومالیہ اور ایتھوپیا کی ’’ترقی کا ماڈل ہے‘‘ جبکہ ہمارے پاکستانی ماڈل پر جسے ہم چھوڑ دیا کوریا اور دوسرے کچھ ممالک نے ترقی کی ہے۔