ہم کسی سیاسی طاقت، حکومت یا ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، چیف جسٹس

1498
Supreme Court

اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہم کسی سیاسی قوت، حکومت یا حساس ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی  میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی بینچ نے عدلیہ میں مداخلت کے معاملے کی سماعت کی۔ بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل تھے۔ دوران سماعت حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے سپریم کورٹ میں اپنے دلائل پیش کیے۔

سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی تجاویز پڑھ کر سنائی گئیں ، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون سی چیزیں ہیں جو ہائی کورٹ کے اختیار میں نہیں آتیں۔ تمام ہائی کورٹس سے تجاویز طلب کی گئی ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سماعت شروع ہونے سے پہلے کچھ معاملات کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ عدالت عظمیٰ کی کمیٹی نے آرٹیکل 184/3 کے تحت سماعت کا فیصلہ کیا ہے کہ جو ججز اسلام آباد میں دستیاب ہیں سب کو بلا لیا جائے، اس معاملے پر سماعت کے لیے ججوں کو منتخب نہیں کیا گیا اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ کیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس پر اپنا حکم نامہ بھی جاری کیا، ہر جج کا نقطہ نظر اہم ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جسٹس یحییٰ کی سماعت سے معذرت کو آسان معاملہ نہ سمجھیں۔ میں نے نشاندہی کی تھی کہ شاید آئندہ سماعت فل کورٹ ہو مگر 2  ججوں  کی دستیابی نہیں تھی، اس لیے فل کورٹ نہیں بلایا جا سکا۔ دیگر دستیاب ججز ملنے تک سماعت ملتوی ہوئی تو مسئلہ ہوگا،ججز نے کہا پہلے ہی ملک میں تقسیم ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ شاید لوگ عدلیہ کی آزادی سے زیادہ اپنے نقطہ نظرکے  پرچار میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی تکلیف دہ تھا کہ سابق چیف جسٹس پر تنقید کے نشتر برسائے گئے۔ اگرکوئی اپنی مرضی اس عدالت پر مسلط کرنا چاہے تو وہ بھی مداخلت ہے اور مداخلت اندر سے بھی ہوسکتی ہے باہر سے بھی۔   مداخلت انٹیلی جنس اداروں،  آپ کے ساتھیوں، فیملی کی طرف سے، سوشل میڈیا کی طرف سے اورکسی بھی طرف سے ہوسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کنڈکٹ سے دکھائیں گے کہ مداخلت ہے یا نہیں، ججزکا حکم نامہ دکھاتا ہے، بتاتاہے کتنی مداخلت ہوئی ہے اور کتنی آزادی ہے کتنی نہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ ہم مداخلت کا معاملہ سنجیدگی سے نہیں لیتے۔

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ نے اس بات کی توثیق کی ہے جو اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس موقع ہے کہ اس معاملے کو حل کریں۔ اندرونی دباؤ ہو  یا بیرونی، ہمیں اسے دُور کرنا ہے۔ ہمیں ہائیکورٹس اورعدلیہ کو بااختیار بنانا ہے، ہمارے پاس سنہری موقع ہے اور ہمیں کوئی مخصوص طریقہ کاربنانا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ صرف مداخلت نہیں بلکہ ہمارے 2 ججز کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔  اگرکوئی بھی مثبت تجاویز دینا چاہتا ہے چاہے وہ پارٹی (کیس میں) ہے یا نہیں وہ دے سکتا ہے۔ ہم نے نوٹس لیا ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے جب کہ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہمیں مداخلت کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرنا ہوگی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر میرےکام میں مداخلت ہو اور میں نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے۔جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ریاست کو عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے، میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں رہا، کسی نے مداخلت نہیں کی، جسٹس بابر ستار کےساتھ جو کچھ  ہورہا ہے وہ سامنے ہے۔

دورانِ سماعت  جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس میں کہا کہ ملک میں 3 ایجنسیاں ہیں، یہ کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں؟ آئی  بی، آئی ایس آئی، اور ایم آئی کس قانون کے تحت بنیں، آئندہ سماعت پر تینوں ایجنسیوں کے قانون بتائے جائیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ جسٹس بابرستارنے شکایت کی ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے،چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نہ میرے پاس نہ وکلا کے پاس جادو کی چھڑی ہے جس سے عدلیہ کی آزادی ہو، یہ ایک سفر ہے اور جمہوریت بھی ایک سفر ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ کیا چیف جسٹس ایک جج کوبلا کرکہہ سکتا ہے کہ اس کیس کا فیصلہ ایسا کرنا ہے،ان کا سول جج بھی اتنا طاقتور ہونا چاہیے جتنا چیف جسٹس ہے اور چیف جسٹس کی جرات کیوں ہو کہ وہ ایک سول جج کے کام میں مداخلت کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم مانیٹرنگ جج لگاتے ہیں اور جے آئی ٹی بناتے ہیں تو ہم عدلیہ کی آزادی کوکم کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ جے آئی ٹی انسداد دہشت گردی قوانین کے علاوہ کہیں نہیں بن سکتی، ہر قسم کی مداخلت چاہے وہ فون کال سے ہو یا عدلیہ سے نہیں ہونی چاہیے۔ کیا ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے مقدمات میں خود مداخلت نہیں کی، انہوں نے کہا کہ ہمیں عدلیہ کے اندر بھی احتساب کی بات کرنی چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میرے چیف جسٹس بننے کے بعد ایک بھی شکایت میرے رجسٹرار آفس میں نہیں آئی اور ہم ماضی کی شکایات کاجائزہ لے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سلیکٹو احتساب بدترین احتساب ہوتا ہے، ماضی میں جو ہوا وہ ہوا، اب سچ بولیں، اگر ہمیں صرف الزام لگانے ہیں تو ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں واقعات بتائیں، میں کئی واقعات بتاسکتاہوں جب مداخلت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ طےکرلیں ہم کسی سیاسی طاقت، حساس ادارے، وکیل گروپ یا حکومت کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ میں ایک اور مداخلت وکلا بارکے صدور کی ججوں کے چیمبرمیں آمد بھی ہے۔