باقی دنیا کے لیے ممنوع اشیاء کچھ بھی ہوں مگر پاکستان کے لیے ممنوع اشیاء کی فہرست دنیا سے قطعی مختلف ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام غیر جانبدار حکماء کی متفقہ رائے یہ ہے کہ یہی وہ ممنوع قرار پانے والی اشیاء ہیں جو آئی ایم ایف کے وینٹی لیٹر پر بے سُدھ پڑی پاکستانی معیشت کو متبادل سانسیں فراہم کر سکتی ہیں۔ وگرنہ تاحیات ہی اسی وینٹی لیٹر پر گزارنا ہوگا۔ ثابت یہ ہور ہا ہے کہ پاکستان کے لیے ممنوع اشیاء میں روسی تیل، ایرانی گیس اور چینی بجلی شامل ہے۔ ان متبادل ذرائع سے چونکہ پاکستان کی معیشت کی اکھڑتی سانسیں بحال ہونے کا امکان ہے اسی لیے ان کو شجر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ یہ متبادل ذرائع اور ان کے نتائج اسکرپٹ سے باہر کی باتیں ہیں اور اسکرپٹ سے باہر جا کر کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ موجودہ ورلڈ آرڈر کو چیلنج کرنے والوں میں شامل ہیں اور ایسے لوگوں کا شمار باغیوں میں ہوتا ہے۔ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا دورہئ پاکستان ہوا تو امریکا میں خطرے کا الارم بجنے لگا اور امریکا نے مسلسل یہ گردان شروع کر دی کہ ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے پابندیوں کی زد میں آسکتے ہیں۔ ایران سے تیل کی اسمگلنگ اور آلو، پیاز، سیب، مصالحہ جات کی معمول کی تجارت سمیت کسی دوسری سرگرمی پر امریکا کو کبھی اعتراض نہیں رہا مگر جب گیس پائپ لائن جیسا کوئی ایسا پروجیکٹ سامنے آئے جو پاکستان کی گری پڑی معیشت کو سہارا دے سکتا ہے اور پاکستان کے عام آدمی پر آئی ایم ایف کی مہنگائی کے تازیانے کی تکلیف کچھ کم ہو سکتی ہے تو امریکا ایسے منصوبوں کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتا ہے۔ ایران سے سستی گیس سے عام آدمی ہی کو ریلیف نہیں ملے گا بلکہ سستی گیس سے پاکستان کی صنعت کا رُکا ہوا پہیہ بھی رواں کرنے میں مدد ملے گی اور یہی وہ بات ہے جو اس منصوبے کے روبہ عمل آنے میں رکاوٹ ہے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب اسرائیل کے ساتھ ایران کی محاذآرائی زوروں پر ہے۔ ایران اپنے علاقائی اتحادیوں کے ذریعے اسرائیل کا گھیرا کیے بیٹھا ہے اور اسرائیل اس گھیرے کو توڑنے کی تدابیر کر رہا ہے تلخ حقیقت ہے کہ یہ تدبیر مسلمان ملکوں کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اسرائیل غزہ میں مسلمانوں ہی کو مار رہا ہے مگر اس کا تحفظ بھی مسلمان ممالک کر رہے ہیں۔ مجبوری، مصلحت اور بے بسی کی اس سے بڑی انتہا اور کیا ہو سکتی ہے۔ اُردن نے نمائشی ہی سہی اسرائیل کی طرف پھینکے جانے والے میزائلوں کو اپنی حدود میں ناکارہ بنا کر اسرائیل کے تحفظ اور آئرن ڈوم کی بیرونی پرت کا کام دیا۔ ایرانی صدر کا دورہ پاکستان خلیج میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے حوالے ہی سے نہیں پاکستان اور ایران کے درمیان حقیقی اور ٹھوس تعاون کے حوالے سے بھی اہم تھا۔ عین ممکن ہے ایرانی صدر نے یہ دورہ چین کے ایماء پر کیا ہو، کیونکہ اس وقت چین پاکستان سے خوش نہیں اور اس کی قربتیں علاقے میں ایران اور افغانستان سے بڑھ چکی ہیں۔ وہ گوادر کو غیر فعال کرکے چابہار کی بندرگاہ اور خلیج کے بجائے واخان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کو زیادہ اہمیت دینے لگا ہے۔ ڈھائی برس قبل جب پاکستان کا سسٹم ایک نئی کروٹ لے رہا تھا چینی وزیر خارجہ نے ایران ہی میں یہ معنی خیز جملہ ادا کیا تھا کہ ایران کی خوبی یہ ہے کہ ایک ٹیلی فون کال پر اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کرتا۔ اس وقت پاکستانی حکام سی آئی اے کے اعلیٰ حکام کے ساتھ دنیا کے مختلف مقامات پر راز ونیاز کر رہے تھے اور ظاہر ہے چین اس بدلتی ہوئی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھا۔
دورہ ئ پاکستان کے بعد ایرانی صدر سری لنکا
بھی گئے اور وہاں بھی انہوں نے تجارت اور توانائی کے کئی معاہدات کیے۔ پاکستان اور سری لنکا اس وقت ایک جیسے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ دونوں ملک چین اور بھارت کی علاقائی کشمکش کی زد میں ہیں اور دونوں کی معیشت برباد ہو چکی ہے اور دونوں وینٹی لیٹر پر ہیں۔ ایرانی صدر کے دورے پر پاکستان کا ردعمل کچھ نیم دلانہ اور سرد ہی رہا۔ تجارتی حجم بڑھانے کے اعلانات تو ہوگئے اور وزیر اعظم شہباز شریف کو اپنی فارسی دانی کی دھاک بٹھانے کا موقع بھی میسر آیا مگر اس ساری کہانی سے سب سے اہم حصہ غائب تھا اور وہ تھا ایران پاکستان گیس پائپ لائن۔ یہ گیس پائپ لائن بھی سی پیک اور گوادر کی طرح پاکستان کا ”گرم آلو“ بن چکی ہے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کو امریکا براہ راست کھلی دھمکیوں سے روکے ہوئے ہے اور مستقبل کا یہ اثاثہ پاکستان کے لیے ایک اضافی بوجھ بن کر رہ گیا ہے کیونکہ ایران اپنے حصے کا کام مکمل کرچکا ہے اور پاکستان معاہدے کے برعکس اپناکام کرنے سے قاصر ہے۔ ایران اگر ہرجانہ طلب کرتا ہے تو پاکستان کے پاس دینے کو کچھ بھی تو نہیں۔
ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر امریکا دباؤ اور نظر رکھے ہوئے ہے اسی لیے جب سے اس پائپ لائن پر کام شروع کرنے کی باتیں چلنے لگی ہیں امریکا تواتر سے خطرے کا الارم بجانے میں مصروف ہے۔ پاکستان کو پابندیوں سے ڈرانے کا عمل زوروں پر ہے۔ سی پیک کو روکنے اور غیر موثر بنانے کے لیے پراکسیز کا استعمال ہورہا ہے۔ رنگ برنگی مسلح تنظیمیں اس منصوبے پر مختلف انداز سے حملہ آور ہیں۔ سی پیک بھی ایک ممنوع شے ہے۔ یہ منصوبہ جب شروع ہورہا تھا تو چہار سو اس کے گیم چینجر ہونے کا غلغلہ تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ الہٰ دین کا چراغ پاکستان کے ہاتھ لگ گیا ہے جسے رگڑتے ہی جن حاضر ہو کر پاکستان کا ہر مسئلہ چٹکی بجاتے ہی حل کردے گا۔ سی پیک کو تقدس کا ایک جامہ پہنایا گیا اور چینی کمپنیوں کے ساتھ معاہدات کی تفصیل کو بھی ہولوکاسٹ کی طرح غیر قانونی قرار دیا گیا۔ پاکستان کے حکمران چینی کمپنیوں سے اپنے حصے وصول کرکے معاہدوں پر دستخط کرتے رہے اور انہوں نے پاکستان کے عام آدمی کا مقدمہ لڑنے میں دلچسپ نہیں لی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مغربی باشندے ہوں یا چینی اپنے ملکوں میں امانت اور دیانت کے چلتے پھرتے اشتہار جب پاکستان جیسے کرپشن زدہ ملکوں میں آتے ہیں تو کان ِ نمک میں نمک ہو جاتے ہیں۔
سی پیک کے منصوبوں میں انفرا اسٹرکچر اور توانائی کے منصوبے خصوصی اہمیت کے حامل تھے اور مستقبل میں پاکستان ایک بڑی تجارتی گزرگاہ کے فوائد بھی سمیٹ سکتا تھا مگر چین کے ساتھ تعاون کا دائرہ سمٹ جانے کے بعد سی پیک پس پردہ چلا گیا ہے۔ روسی تیل بھی بدترین معاشی حالات کا شکار پاکستانیوں کے لیے سکھ کے ایک سانس کا باعث بن سکتا تھا۔ اس سے پاکستان کو بطور ریاست معاشی فائدہ بھی ہو سکتا تھا اور عام پاکستانی پر بھی مہنگائی کا بوجھ کم ہو سکتا تھا مگر اس تیل کی خریداری کی خواہش میں پاکستان آج سیاسی انتشار کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ ایک وزیر اعظم اس کوشش میں اقتدار سے بے دخل کردیے گئے اور یہ فیصلہ پاکستان کی ریاست کے لیے پنڈورہ باکس کھلنے کے مترادف ثابت ہوا۔ روس چین ایران اس خطے کی زمینی حقیقتیں ہیں اور ان سے قربت کی اجازت نہیں۔ ہاں بھارت وہ واحد ملک ہے جس سے تیل گیس، بجلی سمیت ہر شے خریدنے کی اجازت ہے مگر بھارت خود یہ سب کچھ دوسرے ملکوں سے خرید رہا ہے۔ پاکستان کی گری پڑی معیشت کو بھارت کے ذریعے کھڑا کرنا ایک ایسا تصور بن کر رہ گیا ہے جس کے تعاقب میں مغرب نے پاکستانی معیشت کو برباد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔