ایران کو اسرائیلی جواب پاکستان کو خطرہ

782

دوسری قسط
حماس جب سیاسی طور پر سامنے آئی تو اس کو فلسطینیوں کی پرجوش اور قلبی لگائو والی حمایت حاصل ہو گئی۔ عرب سیاست میں اخوان المسلمین تو پہلے سے قائم تھی اس نے مصر میں انتخاب بھی جیتا اور دو سال حکومت میں بھی رہی، لبنان میں حزب اللہ بھی اسرائیل کے خلاف فعال تھی۔ یہ جہادی تنظیمیں جمہوری جدوجہد سے آگے بڑھ رہی تھیں مصر میں اخوان المسلمین اور فلسطین میں حماس عوام میں مقبولیت اور قبولیت حاصل کررہی تھیں شام کے اندر بھی کئی مجاہد تنظیمیں شامی حکومت کے خلاف تحریک چلا رہی تھیں کیونکہ امریکا شام میں حکومت تبدیل کرنا چاہتا تھا اس لیے وہ شام کی مجاہد تنظموں کی تکنیکی اور عسکری سرپرستی کررہا تھا لیکن ان تنظیموں کے پاس کوئی قیادت نہیں تھی اور ان تنظیموں کو امریکا کے علاوہ ان عرب ممالک کی بھی حمایت حاصل تھی جو شام کے خلاف تھے ان جہادی تنظیموں نے بعد میں جو کارنامہ انجام دیا اس کا ذکر تو بعد میں آئے گا لیکن ان مجاہدین کے اثر رسوخ کی وسعت اور ان کی طرف عوام کے رجوع نے عرب ممالک میں شہنشاہیت، بادشاہت اور آمریتوں پر کپکپی طاری کردی، ان کو اپنا اقتدار خطرے میں محسوس ہونے لگا دن کا چین ختم اور رات کی نیندیں اڑ گئیں اب ان ممالک میں فلسطین کے حوالے سے سوچ میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی۔
کہانی یہاں ختم نہیں بلکہ اب شروع ہوئی ہے اور اس کہانی میں اہم موڑ اس وقت آیا، آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلی صدی کی آخری دہائی میں حزب اللہ اور اسرائیل کی ایک جنگ ہوئی حزب اللہ ایک جہادی تنظیم ہے اس جنگ میں حزب اللہ کو ایران اور شام کی پرجوش دیگر عرب ممالک کی بھرپور تمام مسلم ملکوں کی خاموش حمایت حاصل تھی اس کا ہیڈ کوارٹر لبنان میں ہے اور وہیں سے جنگ ہوئی حماس کے مجاہدین، شام کی جہادی تنظیموں کے لوگ اور اخوان المسلمین کے کارکنا ن حزب اللہ کے شانہ بشانہ اسرائیل سے جنگ لڑ رہے تھے اس جنگ میں اسرائیل کو شکست ہوئی تھی اسرائیل سمیت پوری دنیا نے اس شکست کو تسلیم کیا تھا اس جنگ نے عرب ممالک کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے حزب اللہ، شام اور ایران کا ایک مکتبہ فکر ہے یعنی شیعہ فرقہ اور حماس، شام کے مجاہدین اور اخوان المسلمین اکثریتی مکتبہ فکر یعنی سنی العقیدہ لوگوں پر مشتمل ہے ایران شام اور دیگر تمام عرب ممالک اسرائیل خلاف ایک پیج پر تھے پھر تمام مجاہد تنظیموں نے متحد ہوکر اسرائیل کا مقابلہ کیا تو ان کے اتحاد نے اسرائیل کو شکست سے دوچار کیا اس جنگ سے مجاہدین کے حوصلے بلند ہوئے اور فلسطینیوں میں ایک نیا جوش جذبہ پیدا ہوا دوسری طرف امریکا نے سوچا کہ اگر یہ شیعہ سنی مجاہدین تنظیمیں متحد رہیں تو مشرق وسطیٰ کی سیاست کا نقشہ نہ صرف پلٹ جائے گا بلکہ اس خطے کی سیاست پر اس کی بالا دستی ختم ہو جائے گی۔ اسرائیلی شکست پر شام اور ایران کو سب سے زیادہ خوشی ہوئی دیگر عرب ممالک کو حزب اللہ کی فتح کی خوشی کم لیکن تشویش میں اضافہ ہوگیا کہ اگر مجاہدین کے ہاتھوں اسرائیل کو اسی طرح کے جھٹکے پڑتے رہے تو ان کے یہاں بھی جہادی تنظیمیں فعال ہوکر ان کی شہنشاہیت اور آمریت کو ڈینجر زون میں لے جاسکتی ہیں سوچ کی اس تبدیلی نے انہیں مجبور کیا کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی، سیاسی اور تجارتی تعلقات بڑھائیں جائیں تاکہ حماس اور القسام بریگیڈ جیسی تنظیمیں کمزور ہوجائیں۔
اس جنگ کے بعد اس کے نتیجے میں مصر کے انتخابات میں اخوان المسلمون کو کامیابی ملی اور وہ برسراقتدار بھی آگئی جس کی وجہ سے آمروں اور شہنشاہوں کی پریشانیاں اور بڑھ گئیں مصر میں اخوان کی حکومت کو دوسال بھی نہیں چلنے دیا گیا عرب کے امیر ممالک نے اخوان کے زمانے میں مصر کی کوئی مالی مدد نہیں کی لیکن جیسے ہی اخوان دور حکومت کے وزیر دفاع جنرل سیسی نے بغاوت کی حکومت پر قبضہ کیا اور ہزاروں اخوانیوں کو ٹینکوں تلے کچل دیا تو پھر کچھ عرب حکمرانوں کے دلوں میں ٹھنڈ پڑی اور جنرل سیسی کی کچھ عرب ملکوں نے دل کھول کر مالی مدد کی۔
امریکا ویسے تو جمہوریت کا چمپئن بنتا ہے لیکن جہاں اس کے مفادات پورے ہورہے ہوں وہاں وہ شہنشاہیت اور آمریت کو پسند کرتا ہے امریکا نے مجاہدین کے اتحاد کو توڑنے کے لیے شام کی مجاہد تنظیموں کو اس طرح تتر بتر کیا کہ اپنا ایک مصنوعی دشمن داعش (دعوت اسلامی عراق و شام) کو شامی حکومت کے خلاف میدان میں اتارا جبکہ اس کا ایک اور اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا اپنا دشمن القاعدہ پہلے سے افغانستان میں تھا جو مجاہد تنظیمیں شامی حکومت کی طرف سے پہلے سے جدوجہد کررہی تھیں ان پر دبائو ڈال کر داعش میں شامل کرایا گیا کچھ سخت گیر لوگ تو شامل ہوئے لیکن ایک بڑی تعداد فرار ہوگئی گرفتار ہوگئی، روپوش ہوئی کچھ کو مار بھی دیا۔ آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا کہ داعش کو جدید ہتھیار کون دے رہا یہ بہر حال ایک کھلا راز ہے کہ جس ملک کی اسلحہ ساز فیکٹریاں دن رات اسلحہ سازی میں مصروف ہیں وہی ملک ان دونوں انتہا پسند تنظیموں یعنی القاعدہ اور داعش کی سرپرستی کررہا ہے یعنی امریکا۔ داعش نے اپنے مخالفین کو اذیت ناک موت دینے کا طریقہ ایجاد کیا (جبکہ یہ اسلام کی دعوت نہیں ہے) شام کے ایک پائلٹ کو ایک لوہے کے پنجرے میں بند کرکے زندہ جلا دیا گیا پھر اس لوہے کے پنجرے پر روڈ رولر چلا کر جلی ہوئی باڈی کو کوئلہ بنا دیا۔ مصر میں اخوانیوں کو ٹینکوں سے کچل دیا گیا شام کی مجاہد تنظیمیں اس طرح ختم ہو گئیں تو سمجھیے مجاہدین کی کمر ٹوٹ گئی۔ حماس نے جب ہی یہ طے کیا کہ عرب ممالک جس طرح اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات بنارہے ہیں اس میں بریک لگانے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا سال گزشتہ کے ماہ اکتوبر میں حماس کے بھرپور اور منظم حملے نے تو اس سلسلے میں بریک لگادی حالانکہ حماس کا جانی و مالی نقصان بہت زیادہ ہوگیا غزہ تباہ و برباد ہو کر رہ گیا۔
چاندرات سے لے کر عید کے پورے دن غزہ میں اسرائیل بمباری کرتا رہا اسی حملے میں حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کے تین بیٹوں چار پوتے پوتیوں کی شہادتیں ہوئیں اسماعیل ہانیہ نے عید کے دن بچوں کی طرف سے عید مبارک کے الفاظ سننے کے بجائے ان کی شہادت کی خبر بڑے حوصلے سے سنی اس سے قبل ان کے خاندان کے بیس سے زائد افراد پہلے ہی شہید ہوچکے ہیں اسماعیل ہانیہ نے کہا کہ غزہ میں اب تک جو 34ہزار سے زائد لوگ شہید ہوئے ہیں وہ سب ہمارے بیٹے بیٹیاں ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ لوگ اسرائیل پر حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے ایسی بات نہیں ہے یہ یہودی اور عیسائی مسلمانوں کے خوشیوں کے تہوار کو غم و اندوہ میں تبدیل کرکے طمانیت محسوس کرتے ہیں عراق کے صدر صدام حسین کو بھی عید کے دن پھانسی دی گئی تھی۔ یہ جواب تو مل گیا کہ حماس نے کیوں حملہ کیا تھا جو مقصد سامنے تھا اس میں کچھ نہیں بہت کچھ کامیابی مل گئی کہ نہ صرف اسرائیل سے محبت کے رشتے قائم کرنے کا سلسلہ رک گیا بلکہ پچھلے ستر پچھتر برسوں کے بعد مسئلہ فلسطین فلیش ہوکر دنیا کے سامنے آگیا چاہے موافقت میں یا مخالفت میں جب دنیا کی زبان کھلتی ہے تو منہ سے فلسطین ہی نکلتا ہے۔ ساتھ ہی اس سے جڑے ہوئے اس سوال پر غور کرلیں کہ کیا اسرائیل کو اس کی خفیہ ایجنسی موساد کو اور امریکن سی آئی اے کو ان تیاریوں کی خبر نہیں تھی میرا خیال ہی نہیں بلکہ یقین یہ ہے کہ سب کو سب کچھ پتا تھا۔ جیسے کے جنرل ضیاء کے زمانے میں کیا امریکا کو پتا نہیں تھا پاکستان نے بم بنا لیا ہے جبکہ جنرل ضیاء جب برسراقتدار آئے تو اس زمانے بڑا چرچا تھا کہ بھٹو نے فرانس سے ایٹمی پلانٹ خریدنے کی بات کرلی ہے فرانس تیار بھی ہوگیا تھا لیکن بھٹو کی حکومت ختم ہوگئی تو جنرل ضیاء نے بالکل ابتدائی دور میں اسی تناظر میں فرانس کے دوسرے کا پروگرام بنالیا فرانس جانے سے ایک دن قبل جنرل ضیاء کو ایک بڑی قوت کی طرف خط موصول ہوا کہ آپ فرانس جا تو رہے ہیں وہاں ایٹمی پلانٹ کی کوئی بات نہیں ہوگی یہ بات معروف صحافی ہارون الرشید نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھی تھی۔ چنانچہ یہ بات آگے نہ بڑھ سکی بلکہ ختم ہوگئی لیکن پھر کیسے بم بن گیا وہ اس طرح کہ روس نے افغانستان پر حملہ کردیا امریکا کو روس کو چاروں خانے چت کرنے کے لیے پاکستان کی ضرورت پڑگئی پھر یہ ہوا کہ پاکستان نے امریکا کی مدد کی اور امریکا نے پاکستان کے ایٹمی پراسز سے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
اب آجائیں حماس کی تیاریوں کی طرف، تو کیا اسرائیل نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھیں نہیں اس نے آنکھیں کھول کر رکھیں حماس کی ان تیاریوں میں اسرائیل اپنے لیے راستہ بنا رہا تھا، ٹھیک ہے حماس کو حملہ کرنے دو ہمیں بھی روز روز کی اس کل کل سے نجات مل جائے گی ہمیں ایک بہانہ مل جائے گا کہ ہم ہفتے یا دو ہفتے میں یا شاید ایک ماہ لگ جائے شدید بمباری کرکے غزہ خالی کرالیں گے اس طرح کے غزہ کو ریت کے ڈھیر میں تبدیل کردیں فلسطینی اپنی جانیں بچانے کی خاطر کچھ اِدھر اُدھر، کچھ مصر میں، کچھ کہیں اور کچھ کیمپوں میں منتقل ہو جائیں گے۔ لیکن اکثر اوقات ہم سوچتے کچھ اور ہیں اور ہوتا کچھ اور ہے اسرائیل کو یہ اندازہ نہیں تھا حماس کی مزاحمت سات مہینے تک کھنچ جائے گی۔ ہم ایک ماہ میں اپنے مقاصد حاصل کرلیتے تو دنیا اتنا کچھ اسرائیل خلاف نہ کہتی جتنا آج کہہ رہی ہے۔ مسلم ممالک کے عوام میں تو پہلے ہی سے ایک نفرت موجود تھی اب یہ اور بڑھ گئی دوسری طرف امریکا مغربی ممالک اور دنیا میں ہر جگہ اسرائیلی مظالم کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی ہر طرف سے فلسطینیوں کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگیں۔ پھر اسرائیل نے سوچا یا اس کے سرپرستوں نے کہ بس بہت ہوگیا اب ہماری ساکھ بھی دائو پر لگ گئی ہے کہاں تک ہم ویٹو کرتے رہیں گے تو پھر یہ ہوا کہ ایران کے خلاف محاذ کھولا جائے تاکہ غزہ کی طرف سے دنیا کی توجہ ہٹ جائے لہٰذا ایک پھسپھسا سا بہانہ بنایا گیا کہ شام میں ایرانی سفارت خانے سے حزب اللہ کی مدد کی جارہی ہے اس نے یکم اپریل کو شام میں اسرائیلی سفارت خانے پر حملہ کردیا تاکہ دنیا کو یہ پیغام مل جائے کہ ایران اسرائیل جنگ شروع ہوگئی لیکن امریکا نے ایسا نہیں ہونے دیا ایران کے جوابی حملے سے اسرائیل کو کوئی نقصان نہیں پہنچا کہ امریکا برطانیہ اور اردن نے اپنے اوپر سے گزرنے والے ڈرون کو مار گرایا۔ امریکا نے اسرائیل کو روکا تھا کہ کوئی جواب نہ دیا جائے ہم جنگ کو بڑھانا نہیں چاہتے لیکن پھر بھی اس نے ایک بے ضرر حملہ کردیا اس کے بدلے اس نے اس امریکی پابندی کو ختم کردیا جو امریکا نے رفح کراسنگ پر حملہ کرنے کے حوالے سے لگائی تھی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین نے اپنے پیاروں کی قربانی دے کر مزاحمت کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال بہت کم ملے گی اگر ہم بھی 1971 میں ہندوستانی فوجوں کے سامنے مزاحمت کرتے تو ہم ذلت آمیز شکست سے بچ جاتے مجھے امید ہے کہ فلسطینیوں کی امید سحر بہت جلد طلوع ہونے والی ہے۔