صاحب ِ اولاد

432

کبھی کبھی یہ گمان حقیقت کے پیراہن میں ملبوس دکھائی دیتا ہے کہ عدلیہ کو قومی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں اس کی ساری توجہ اپنے اور وکلا کے مفادات پر مبنی ہے اور اب تو آئے دن فل کورٹ اجلاس بْلائے جا رہے ہیں حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ اجلاسوں میں قومی مسائل کا کوئی بھی تذکرہ نہیں ہوتا البتہ فوری اور بروقت انصاف کی فراہمی کا تڑکا لگا دیا جاتا ہے حالانکہ اس حقیقت کا ادراک سب ہی کو ہے کہ عدلیہ چاہے تو بروقت انصاف کی فراہمی کوئی مشکل عمل نہیں۔ بات صرف اخلاص کی ہے اور یہ حقیقت بھی ناقابل ِ تردید ہے کہ جس دن عدلیہ نے فوری انصاف کی فراہمی کا تہیہ کر لیا تو عدالتوں پر مقدمات کا انبار بوسیدہ دیوار کی طرح زمیں بوس ہوجائے گا۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو الوداع کہنے کے لیے بھی فل کورٹ اجلاس طلب کیا گیا آثار و قرائن بتا رہے ہیں کہ جج اور جسٹس صاحبان کو خوش آمدید کہنے کے لیے بھی فل کورٹ اجلاس بْلائے جائیں گے عوامی حلقوں نے مذکورہ اجلاس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس منصف کے اکثر فیصلے متنازع ہوں اْس کو الوداع کہنے کے لیے فل کورٹ اجلاس کیوں بْلایا گیا؟ حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اْن کے متنازع اور قانون سے ماورا فیصلوں کا احتساب کیا جاتا۔
جسٹس کاظم ملک کا ارشادِ گرامی ہے کہ آدھے سے زیادہ مقدمات ایک پیشی پر ختم کیے جاسکتے ہیں اور قتل کے مقدمہ کا فیصلہ تین پیشیوں پر سنایا جا سکتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو وکلا کی اکثریت مالی مشکلات میں مبتلا ہو جائے گی اور اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وکلا کی آمدنی حلال ہوجائے گی۔ شنید ہے کہ اس بیان کے بعد بعض وکلا نے کہا ہے کہ وہ رزقِ حلال کو فوقیت دیں گے۔ مقدمات کو طول نہیں دیں گے، جھوٹے گواہان پیش نہیں کریں گے ، عدالتی نظام کو بہتر بنانے میں دیانتداری کا مظاہرہ کریں گے۔
ہم ایک مدت سے گزارش کر رہے ہیں کہ انصاف کی بروقت فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ وکلا ہیں وہ قانونی موشگافیوں کے ذریعے پیشی در پیشی کا ایسا ابلیسی چکر چلاتے ہیں کہ جج صاحبان چکرا جاتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جج صاحبان وکالت کی سیڑھی پر چڑھ کر ہی مسند ِ انصاف پر براجما ن ہوتے ہیں اور وکلا اْن کی خامیوں سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اور یہ واقفیت ہی تاخیری حربوں کا ہتھیار بن جاتی ہے۔ جب تک عدالتی نظام انہی خطوط پر استوار رہے گا بہتری کی کوئی بھی صورت کار گر نہیں ہوسکتی سو لازم ہے کہ اس نظام کو بہتر بنایا جائے۔
وکالت کے بعد وکلا صاحبان کے لیے لازم قرار دیا جائے اور اْن کو مختلف کورسز کرائے جائیں جیسے ایم بی بی ایس کے بعد کامیاب اور ماہر ڈاکٹر بنانے کے لیے کرائے جاتے ہیں اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کامیاب اور ماہر ڈاکٹر کے لیے ایم بی بی ایس کے بعد دیگر کورس کرائے جاتے ہیں بصورت دیگر ڈاکٹر نزلہ، زکام اور کھانسی کا ہی علاج کرسکتا ہے ماہر اور کامیاب ڈاکٹر کبھی بھی نہیں بن سکتا مگر ہماری گزارش پر کسی نے بھی توجہ نہ دی کیونکہ نقار خانے میں تُوتی کی آواز کوئی نہیں سنتا البتہ تْوتی خان کی آواز سبھی سْن لیتے ہیں۔
جسٹس صاحب کے فرمان کے مطابق انصاف بروقت ملنے لگے تو عدالتی ذبح خانے بند ہوجائیں گے اور وکلا کی آمدنی حلال ہوجائے گی۔ شاید اسی تناظر میں اکبر آلہ آبادی نے کہا تھا کہ ؎
’’پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحبِ اولاد ہو گئے‘‘