ہم ہنس دیے، ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ ترا

539

سندھ میں سرکاری اداروں بشمول تعلیمی اداروں میں ایک طویل عرصے سے جاری سیاسی مداخلت، رشوت، سفارش اور حکومتی کوٹے پر کی جانے والی بھرتیوں کی وجہ سے ان اداروں کا سارا نظام ایک طرح سے یکسر درہم برہم ہوچکا ہے۔ ہر سرکاری ادارے میں ملازمین کی ایک فوج ظفر موج ہے جو خود کو تفویض کردہ امور کو انجام دینے کے بجائے اپنے اپنے ادارے میں ملازمین کی قائم کردہ یونین کے بل بوتے پر زیادہ سے زیادہ اضافے، سرکاری مراعات، ترقی، بونس، تنخواہوں میں اضافہ اور اپنے اعلیٰ افسران کو بلیک میل کرنے جیسے ناپسندیدہ کاموں میں مصروف اور الجھی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اگر کوئی افسر ان ملازمین سے کام لینے کی جسارت کرے تو پھر اس کی خیر نہیں، کیونکہ سرکاری ملازمین کی یونین ایسے میں فعال اور متحرک ہوجایا کرتی ہے اور ایسے افسر کو بذریعہ احتجاج، بھوک ہڑتال اور دھرنا تھوڑے ہی عرصے میں اپنے ہاں سے تبدیل کرادیا جاتا ہے۔ اب بھلا ایسے ابتر ماحول میں کون سا ایسا افسر ہوگا جو اپنے سرکاری ادارے میں اصلاح احوال اور بہتری کے لیے اپنی جملہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی سعی، ہمت اور جرأت کرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ لگ بھگ تمام صوبائی اداروں میں امور سرکار تقریباً ٹھپ اور متاثر ہو کر رہ گئے ہیں۔ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں ہے اور سندھی میں مروجہ ایک تبصرے کے مطابق ’’ذرّے گھٹ (تقریباً) اب حال پورا سارا ہی ہوچکا ہے (مفہوم)‘‘۔ خود راقم کے ادارے میں لوئر اسٹاف (نچلے درجے کے ملازمین) کے درجنوں بھرتی شدہ ملازمین کا کام ہر دن اپنے وقت مقررہ پر صبح اگر حاضری لگانے کے بعد چائے پینا، موبائل پہ یا باہم گپیں ہانکنا اور پھر دوپہر کو گھر چلے جانے کی حد تک ہی رہ گیا ہے۔ یہ ایسے تلخ اور آنکھوں دیکھے مشاہدے پر مبنی غمزدہ کردینے والے حقائق ہیں جن سے کسی طور بھی اغماض برتنا ممکن نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بے چارے مسائل سرکاری دفاتر میں اپنے جائز کام کروانے کے لیے بھی دھکے کھاتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جن کا کوئی بھی پرسان حال نہیں نظر آتا۔ بیش تر سرکاری ملازمین کا رویہ سائلوں کے ساتھ بے حد متکبرانہ اور قابل مذمت ہوتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ گویا وہ ان کا کام نہیں کررہے بلکہ ان کے ساتھ ایک طرح سے احسان کررہے ہوں، درآں حالیکہ سرکاری ملازمین کو اپنے فرائض کی ادائیگی کے عوض معقول مشاہرہ اور قابل رشک دیگر مراعات ملتی ہیں، تاہم مجال ہے کہ کسی بے چارے سائل کا جائز کام بھی بغیر سفارش اور رشوت کے ممکن ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سندھ میں سرکاری ملازمت کا حصول، خواہ وہ درجہ چہارم ہی کی کیوں نہ ہو، آج ہر بے روزگار کا ایک ایسا سہانا سپنا بن گئی ہے جسے پانے کے لیے وہ اپنے گھر کے قیمتی سامان، زرعی زمین، مال مویشی تک کو بھی فروخت کرنے کے لیے اپنے والدین کو آمادہ اور قائل کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے سرکاری ملازمت پانے کے ریٹ (رشوت کے) بھی اب آسمان کو چھونے لگے ہیں۔ کیا کوئی اس امر پر یقین کرے گا کہ سندھ میں اب ایک عام چپراسی، پولیس کانسٹیبل یا کلرک کی سرکاری پوسٹ کے

حصول کی بھی کم از کم قیمت 5 لاکھ روپے ہے اور وہ بھی بڑی مشکل سے کسی نصیب اور قسمت والے ہی کو مل پاتی ہے۔ دیگر سرکاری ادارے تو ٹھیرے ایک طرف سندھ کے تعلیمی اور عدالتی کاموں میں بھی حد درجہ بدنظمی، بدعنوانی کی شکایات بہت بڑے پیمانے پر اور مقامی عوامی زبان میں ’’عام جام‘‘ ہیں، جبکہ کم از کم ان اداروں کے امور تو صاف شفاف، نظم و ضبط کے ساتھ اور کرپشن سے یکسر نہیں تو کافی حد تک پاک ہونے چاہئیں۔ بظاہر تو یہ امر ناقابل یقین لگتا ہے کہ سندھ کے کالجوں کے شعبہ تعلیم کے دفاتر میں بھی بدعنوانی ہوتی ہوگی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ سندھ کے پروفیسرز اور لیکچررز تک کو بھی اپنے جائز کام کروانے کے لیے دفاتر کے عملے کی مٹھی گرم کرنی پڑتی ہے۔ یہاں تک کہ ایم فل، پی ایچ ڈی کی تحقیقی ڈگری حاصل کرنے کے لیے متعلقہ سرکاری شعبے سے اجازت نامے کے حصول یا پھر عمرہ اور حج پر جانے کی خاطر بھی۔ یہ ایک ایسی بدترین، بھیانک اور کراہت آمیز تلخ ترین حقیقت ہے جسے بیان کرتے ہوئے بھی ایک سلیم الطبع فرد فرید کو حد درجہ کوفت اور شرم محسوس ہوتی ہے۔ جب زوال اور انحطاط اس نہج پر پہنچ چکا ہو تو ایسے میں تباہی کے قدموں کی چاپ صاف محسوس ہوتی ہے۔ آج کل سندھ کے اسکولوں میں مڈل کلاس تک کے امتحانات کا انعقاد ہورہا ہے اور بے حد افسوس ناک امر یہ ہے کہ نچلی جماعتوں تک میں بھی سرعام نقل کا مکروہ کام بڑے دھڑلے سے ہورہا ہے۔ 2 مئی سے بورڈ کے تحت درجہ نہم دہم اور پھر 22 مئی سے درجہ یازدہم، دواز دہم (فرسٹ ایئر، انٹر) کے امتحانات کا انعقاد بھی ہوگا اور ان میں بھی یہی افسوسناک عمل بڑی ڈھٹائی کے ساتھ دہرایا جائے گا۔ سندھ میں سارے بورڈ اور تمام

یونیورسٹی کے تحت منعقدہ امتحانات کا سلسلہ صرف اور صرف ایک سنگین مذاق اور کاروبار بن کر رہ گیا ہے۔ بورڈز اور یونیورسٹیوں میں زیادہ نمبر کے حصول اور گریڈ یا ڈویژن پانے کے لیے باقاعدہ بولی لگتی ہے اور سودے بازی کی جاتی ہے جس کے بارے میں ہر ایک کو بخوبی پتا ہے۔ جو راقم اس تلخ حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہے تو بھلا متعلقہ سرکاری ذمے داران کیسے لاعلم رہ سکتے ہیں؟ تاہم ہر ذمے دار سرکاری ادارے میں براجمان افسران اپنی اپنی مصلحتوں، مفادات اور مراعات کے اسیر ہیں اور کوئی بھی بھیڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے یا بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کے لیے دکھائی نہیں دیتا۔ گزشتہ دنوں صوبائی وزیرتعلیم سندھ سید سردار شاہ نے بڑے زور و شور سے یہ اعلان کیا ہے کہ اب کی بار منعقدہ بورڈ یا یونیورسٹیوں کے امتحانات میں نقل کرنے یا کروانے والوں کے خلاف سخت تادیبی اور محکمانہ کارروائی کی جائے گی اور کسی کے ساتھ بھی کسی نوع کی کوئی رُو رعایت نہیں برتی جائے گی۔ راقم کو یقین ہے کہ مذکورہ بیان کے بارے میں جان کر تمام اہل سندھ کی کیفیت ہی ’’ہم ہنس دیے، ہم چُپ رہے، منظور تھا پردہ ترا‘‘ کی سی ہوگی۔ کیوں کہ ہر سال، ہر بار، ہر وزیر تعلیم بعینہ دعویٰ اور اعلان تو بڑے زور و شور کے ساتھ اور بلند آہنگ میں کیا کرتے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد ہوتا ہوا کبھی بھی اور کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زوال اور انحطاط کا جاری یہ المناک سفر آخر کب رُکے گا یا پھر خاکم بدہن ہم نے تباہی اور بربادی کے بھیانک گڑھے میں گرجانے کا عزم صمیم کرلیا ہے؟۔