’’ایڈ‘‘ کو مرض کے معنوں میں لے لیا جائے یا پھر مدد کے معنوں میں، جس کو بھی یہ مرض لگ جاتا ہے اس کا علاج موت کے علاوہ ممکن نہیں ہوتا۔ یہ مرض عجیب نوعیت کا ہوتا ہے، غور کرو تو مرض بھی نہیں اور نوعیت پر جاؤ تو جسم کا رواں رواں کانپ کر رہ جائے۔ یہ مرض ایسا ہے جیسے آپ کا گھر تو ہو لیکن اس کے دروازے اور کھڑکیوں کے پٹ بالکل ہی غائب ہوں اور کوئی پاسبان بھی نہیں ہو جو گھر میں کسی کے بلا اجازت گھسنے کو روک سکے اور اس پر ستم بالائے ستم یہ ہو کہ مکین بھی اس حد تک نحیف و ناتواں ہو کہ وہ ایک چڑیا کے بچے کو بھی روک لینے کے قابل نہ ہو۔ اب اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ کیا ایسے انسان کا زندہ رہنا اور ایسے گھر اور اس کے مکینوں کا سلامت رہنا ممکن ہو سکتا ہے جو باہر سے حملہ آور کسی بھی دشمن یا بیماری کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا ہو۔
عالم اسلام پر ایک بھر پور نظر ڈالی جائے تو جو حقیقت سامنے آتی ہے وہ بہت ہی تلخ ہے۔ پورے عالم اسلام میں عالم یہ ہے کہ کسی بھی قسم کا تخلیقی کام نہیں ہو رہا۔ اوّل تو بیش تر اسلامی ممالک خود کسی بھی قسم کی تخلیقی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، ان کے ہاں نہ تو ایسی درس گاہیں ہیں جن میں ایسی تعلیم دی جاسکے جو ان میں بسنے والوں کو ایسے علوم سکھا سکیں جو انہیں، موجودہ اور آنے والے دور کا مقابلہ کرنے کے قابل بنا سکیں۔ دوم یہ کہ اگر کچھ اسلامی ممالک اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے بہت سارے اسباب از خود بھی تیار کرنے کے قابل ہو گئے ہیں تب بھی ان اسباب کی تیارتی کا انحصار ان درآمد شدہ مشینری پر ہے جو ملک میں بنائی جانے والی اشیا کے بنانے کے لیے ضروری ہیں، گویا اپنے اپنے ممالک میں تیار کی جانے والی اشیا کے لیے بھی ایسے ممالک کی ترقی کا یا خود کفالت کا انحصار کسی نہ کسی دوسرے ملک پر ہی ہے۔ اس طرح وہ بہت سارے معاملات میں خود کفیل ہونے کے باوجود غیروں کے محتاج ہیں جو ان کی ملوں، کارخانوں، سڑکوں پر دوڑتی پھرتی اور ہواؤں میں اڑتی مشینوں کو ان کے ہاتھوں فروخت کرتے ہیں۔ دفاعی نظام کسی بھی ملک کے لیے کتنا ضروری ہوتا ہے، اس سلسلے میں کوئی بہت لمبی بحث و تمحیص کی ضرورت نہیں۔ اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے نمٹنے اور نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ملک دفاعی معاملات میں بہت مضبوط اور مستحکم ہو، لیکن بد قسمتی تمام عالم اسلام اس معاملے میں بہت کمزور نظر آتا ہے۔
اوّل تو بیش تر ممالک کے پاس بہت مضبوط اور تربیت یافتہ فوج ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے دشمن ممالک چار دن سے لے کر ایک ماہ میں ایسے ممالک کو اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں اور اگر کچھ ممالک مضبوط فوج اور دفاعی ساز و سامان بھی رکھتے ہیں تو وہ بھی خرید کیا ہوا ہوتا ہے، اور خریدا گیا سامان ضروری نہیں کہ آپ اپنی مرضی سے استعمال کرسکیں کیونکہ سازو سامان بنانے والے ممالک اس بات کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ اسے استعمال سے قبل ہی ناکارہ بنادیں۔ ہوائی جہاز ہوں یا سڑکوں پر دوڑنے پھرنے والی مشیری، بڑے بڑے بحری بیڑے ہوں یا جنگی ساز و سامان، اگر وہ خرید کیا ہوا ہے تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ اڑنے، دوڑنے، استعمال ہونے اور تیرنے سے قبل ہی اس قابل نہ چھوڑا جائے کہ اس کو آپ استعمال کر سکیں۔ اندرونی طور پر بھی اسلامی ممالک اتنے لاغر اور ناتواں ہو چکے ہیں کہ ان میں بسنے والے مختلف گروہوں کو اپنے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے خرید ا جا سکتا ہے اور خریدا بھی جاتا ہے، کسی کو مذہب کے نام پر، کسی کو دنیاوی لالچ دے کر اور کسی کو کوئی اور سبز باغ دکھا کر اپنی مطلب براری کر لی جاتی ہے۔ یہ بات میں یونہی نہیں کہہ رہا ہوں، تقریباً ساری عرب دنیا، پاکستان، افغانستان ایران
اور ترکی اس دعوے کی دلیل کے لیے کافی ہے۔ کچھ ممالک تو عملاً دو دو ریاستوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور پاکستان، افغانستان، بنگلا دیش اور ترکی شدید تخریب کاری اور دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں اور ان ممالک میں ایسا سب کچھ باہر سے آنے والے لوگ نہیں کر رہے ہیں بلکہ دشمنوں کو ایسے سارے افراد انہیں ممالک کے اندر سے ہی دستیاب ہو جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے اسلامی ممالک اس کو اپنی کمزوری سمجھنے کے بجائے بیرونی ہاتھ کہہ کر اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈال دے دیتے ہیں لیکن اس بات کا تجزیہ کرنے کے لیے کوئی تیارو آمادہ نظر نہیں آتا کہ وہ ان سارے حالات کا جائزہ لیکر یہ بات معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ اپنے ہی ملک میں رہنے والے آخر کار بیرونی سازش کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں۔ اگر دوسرے ملکوں کے افراد کا خریدنا یا ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا اتنا آسان کام ہے تو ایسا ہی کام اسلامی ممالک اپنے دشمن ملک میں انجام کیوں نہیں دے سکتے۔ اگر ان تمام باتوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ دنیا کے تمام اسلامی ممالک ایک بہت ہی خوفناک بیماری کا شکار نظر آتے ہیں جس نے ان کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے اور باہر سے بھی اتنا لاغر، نحیف اور ناتواں بنا دیا ہے کہ یہ ایک چڑیا کے بچے کے برابر دشمن کو زیر کردینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اسرائیل جو اسلامی وعرب دنیا کے آگے آبادی اور عقیدے کے اعتبار سے چڑیا کے بچے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا لیکن وہ ان ممالک کے لیے ہاتھی بنا ہوا ہے اور یہ سب اس لیے ہے کہ اسلامی ممالک نہ تو اپنا کوئی مضبوط دفائی نظام رکھتے ہیں اور نہ ہی جنگی ساز و سامان اور جو کچھ آلات حرب و ضرب ان کے پاس ہے وہ بھی ان ممالک سے خرید کیا ہوا ہے جو دن رات ان کو ہڑپ کرنے اور ان کی دولت لوٹنے کے منصوبے بناتے
رہتے ہیں اور خصوصاً تیل کے ذخائر تو ان کے لیے بہت ہی کشش رکھتے ہیں۔ دیمک زدہ چیز اوپر سے اصل سے بھی خوبصورت نظر آتی ہے لیکن اندر سے اتنی کھوکھلی ہوچکی ہوتی ہے کہ ذرا زور پڑا اور دھڑام۔ مان لیجیے کہ اسلامی ممالک میں خاص طور سے عرب ممالک اس کی بہترین مثال ہیں جو اوپر سے بڑی چمک دمک رکھتے ہیں لیکن اندر سے نہایت کھوکھلے ہیں۔ ان ممالک میں عالم یہ ہے کہ نہ تو یہ اپنے ملک میں جدید تو جدید، اعلیٰ دینی مدارس تک قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کا قول ہے کہ دولت سے دنیا کی ہر چیز خریدی جا سکتی ہے اور دولت کی ان کے پاس کوئی کمی نہیں لیکن ان کو یہ احساس نہیں کہ دولت سے، عزت، وقار، خودی اور خودداری کسی قیمت پر نہیں خریدی جا سکتی۔ آپ نے اکثر یہ مناظر اپنے آنکھوں سے دیکھے ہوں گے کہ کوئی بڑا عہدے دار اپنے کسی اعلیٰ سے اعلیٰ افسر کو اپنے کمرے میں طلب کر کے چپڑاسی کو بلواتا ہے اور اس کے ہاتھ سے اسے پٹواتا ہے۔ ایسا کیوں کرتا ہے؟ یہ جتانے کے لیے کہ تمہاری حیثیت میری نگاہوں میں اس چپراسی کے برابر بھی نہیں۔ یہی حال سارے عربوں کا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ یہودیوں کے ہاتھوں پٹوا کر یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ تم ان لعنتی قوم سے بھی بد تر ہو لیکن غیرت غیرت مندوں کو آتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جو بات اب میں کہنے والا ہوں اس کے سن کر بہت سارے افراد مجھ سے ناراض ہو جائیں، ’’بات رسوائی کی ضرور ہے مگر کیا کیا جائے کہ بات سچ بھی یہی ہے‘‘ اور اگر بات سچ ہو تو اسے کہہ دینے میں کہنے والا مستوجب ِ سزا ہی کیوں نہ قرار دیا جائے اسے کہہ دینا ہی اچھا ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ پورا عالم اسلام ایک خطرناک ترین بیماری کا شکار ہو چکا ہے اور وہ ہے ایڈ اس لیے کسی بھی اندرونی اور بیرونی ’دشمن بیماری کے حملے سے بچ جانا اس کے لیے کسی بھی طور ممکن نہیں۔ اور پوری دنیا جانتی ہیں کہ ایڈ کے لگ جانے کی بنیادی وجہ کیا ہے۔ اس کے آگے میں کیا بیان کر سکتا ہوں، ہاتھ تو ہاتھ، نوائے صریر خامہ بھی کپکپانے لگتی ہے۔