بے قدری قوم

429

اے ابن آدم ہم ایک بے قدری قوم ہیں جس نے اپنے بانی و قائد کے افکار کی قدر نہیں کی، محسنوں کے ساتھ احسان فراموشی کی، عملی کام کرنے والوں کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا، پاکستان کی واحد نظم و ضبط رکھنے والی جماعت‘ جماعت اسلامی کو کبھی بھی حکومت بنانے کا موقع نہیں دیا۔ مولانا مودودیؒ سے لے کر حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں ایک سے ایک نگینہ جماعت اسلامی نے قوم کو دیا مگر موروثی سیاست اس قوم کا مقدر بن چکا ہے۔ آج بھی جئے بھٹو کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کیا جاتا ہے مگر قوم کو کچھ نہیں دیا جاتا۔ سندھ میں آج بھی بھٹو کے نام پر سندھی بھائی جان دینے کو تیار ہوجاتے ہیں، کیا دیا اس جماعت نے؟ بھٹو اور ان کی بیٹی بے نظیر کے بعد پارٹی نے عوام کو کیا دیا۔ ایک بار پھر سندھ حکومت پر پیپلز پارٹی کا راج ہے، دوسری طرف صدر پاکستان آصف علی زرداری دوبارہ اس اہم عہدے پر فائز ہوئے مگر اب تک قوم کے لیے کوئی ایک بڑا کام نہیں کیا۔ مہنگائی بام عروج پر ہے، رمضان سے لے کر عید تک عوام کا بھرکس نکل گیا مگر کسی نے عوام کی حالت پر رحم نہیں کھایا۔ ہم نے ہمیشہ کام کرنے والوں کی بے قدری کی، محمد محسن جیسے قابل ترین بیوروکریٹ کی قدر نہیں کی، حال ہی میں انہوں نے 100 روپے کے نوٹ اور قائداعظمؒ کے نام میں انگریزی میں جو غلطی کی جارہی ہے اس کو آشکار کیا۔ اسٹیٹ بینک سمیت تمام حکومتی ذمے داروں کو خط لکھ کر 100 کے نوٹ پر ہونے والی غلطی کو بتایا مگر کسی نے ان کی قدر نہیں کی، آخر میں انہوں نے محتسب اعلیٰ کی عدالت میں کیس لگا دیا پھر حق کی جیت ہوئی مگر اسٹیٹ بینک نے ان احکامات کو بھی نظر انداز کر رکھا ہے۔

میئر کراچی عبدالستار افغانی سے لے کر سٹی ناظم آباد نعمت اللہ خان نے کراچی کی ترقی کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ JDC کے ظفر عباس نے جو فری لیب بنائی ہے اس کے صحت کے شعبے میں موجود مافیا کی راتوں کی نیند حرام کرکے رکھ دی ہے۔ میں اس مافیا پر پہلے بھی قلم اٹھا چکا ہوں جس لیب ٹیسٹ پر 20 روپے لاگت آتی ہے اس کے 1000 روپے وصول کیے جاتے ہیں، لیب والے کئی ہزار گنا منافع کما رہے ہیں مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں، ہر ڈاکٹر من پسند لیب کے ٹیسٹ لکھ کر دے رہا ہے اور لیب والے اس کو بھاری کمیشن دے رہے ہیں۔ ہمارے ملک کو کرپشن اور کمیشن ہی نے تو تباہ کیا، باآسانی یہ قوم اپنے ضمیر کا سودا کرلیتی ہے، پوری دنیا میں ہمارے پاسپورٹ کی کوئی قدر نہیں اور کیسے ہوگئی جب ہم وہاں جا کر چوریاں کریں گے۔ بھیک مانگیں گے ،فراڈ کریں گے تو کیا خاک عزت ہوگی۔ آج ایک ایسے عظیم شخص کے بارے میں بیان کرتا ہوں جس کے بارے میں نئی نسل کو کچھ نہیں معلوم، ایک ایسا عظیم شخص جس نے 1994ء میں کنگ فیصل ایوارڈ کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرایا کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے لکھا ہے جس نے فرانس کی شہریت کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرایا کہ مجھے اپنی مٹی اور اپنے وطن سے محبت ہے، اس عظیم انسان کے ہاتھ پر 4 ہزار غیر مسلموں نے کلمہ طیبہ پڑھا، آپ 22 زبانوں کے ماہر تھے، 84 سال کی عمر میں آخری زبان تھائی سیکھ لی تھی۔ مختلف زبانوں میں 450 کتابیں اور 937 علمی مقالے لکھے، آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنے برتن اور کپڑے خود دھوتے تھے۔ آپ کو 1985ء میں پاکستان نے اعلیٰ ترین شہری اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا تو اعزاز کے ساتھ ملنے والی رقم جو ایک کروڑ روپے بنتی تھی اس رقم کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ تحقیقات اسلامی کو یہ کہتے ہوئے دی کہ اگر اس فانی دنیا میں یہ اعزاز وصول کیا تو پھر باقی رہنے والی زندگی کے لیے کیا بچے گا۔ ایک بہت بڑا کام جو ریکارڈ پر موجود ہے اور ان کے ہونہار شاگرد پروفیسر ڈاکٹر لیاقت مرزا اللہ نے بتایا کہ حدیث کی اولین کتاب جو 58 ہجری میں لکھی گئی تھی جسے صحیفہ ہمام بن منبہ کہا جاتا ہے اس عظیم حدیثی و تاریخی دستاویز کو انہوں نے 1300 سال کے بعد جرمنی میں برنس لائبریری سے دریافت کیا اور تحقیق کے بعد شائع کرایا۔ آپ نے قرآن پاک کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ و تفسیر تحریر کیا جس کے بیسوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ آپ کی کتاب ’’تعارف اسلام‘‘ جو دنیا کی 22 زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے یہ عظیم شخص ڈاکٹر محمد حمید اللہ تھے جو 1908 میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ نے 1933ء میں جرمن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، وہیں عربی اور اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ آپ 1946ء میں اقوام متحدہ میں ریاست حیدر آباد کے نمائندہ سفیر مقرر ہوئے۔ 1948ء میں سقوط حیدر آباد اور انڈیا سے ریاست کے جبری الحاق پر سخت دلبرداشتہ ہوئے اور جلاوطنی کی زندگی اختیار کی اور جلاوطنی کے دوران حیدر آباد لبریشن سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی۔ 1950ء میں پاکستان کا پہلا قانونی مسودہ بن رہا تھا تو آپ سے رابطہ کیا گیا۔ آپ پاکستان تشریف لائے، آپ نے 1952ء سے 1978ء تک ترکی کی مختلف جامعات میں پڑھایا۔ 1980ء میں جامعہ بہاولپور میں طلبہ کو خطبات دیے جنہیں بعدازاں خطبات بہاولپور کے نام سے شائع کیا گیا۔ یہ عظیم علمی اور فکری شخصیت فلوریڈا میں 17 دسمبر 2002ء کو انتقال فرما گئے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کہنے کو ایک فرد تنہا تھے لیکن کام کئی جماعتوں سے زیادہ کر گئے۔ ایسے بے شمار خاموش سپاہی اس وطن عزیز میں آج بھی موجود ہیں لیکن ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم ایسے محب وطن، ایماندار، سچے، صادق و امین، بے لوث لوگوں کی قدر نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا اور ملک کا اداروں کا بُرا حال ہے۔ اللہ پاکستان کو سلامت رکھے اور میری قوم کے شعور کو بیدار کریں، یہ دعا ہے ابن آدم کی۔