صادق الوعد (سچا وعدہ)

397

دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر ہونے والے اسرائیلی حملے پر بین الاقوامی ردعمل بڑا مایوس کن تھا۔ عالمی سطح پر اس حملے کی مذمت تک نہیں کی گئی۔ اگر اس وقت ایرانی قونصلیٹ پر حملے کا کوئی ازالہ کیا جاتا خواہ زبانی ہی تو ایران اس کے ردعمل کو عزت کا مسئلہ نہ بناتا۔ لیکن عالمی سطح پر اُس وقت ایک سناٹا تھا اور دوسری طرف اسرائیل پر حملہ ہوتے ہی اقوام متحدہ سمیت یورپی یونین، امریکا، برطانیہ، فرانس اور دوسرے ممالک ایران کے خلاف بول پڑے۔ اس مذمت کے ساتھ امریکا نے ایران کے حملے کو پسپا کرنے کے لیے اپنے فوجی مشین کو بھی استعمال کیا تھا، ساتھ ہی اپنے اتحادی (اردن) کو بھی حملے روکنے کے لیے کہا۔ جس پر مسلم دنیا حیران ہوئی اور اسرائیل میں خوش کن لہر دوڑ گئی۔ عالم اسلام خاص طور سے عرب ممالک نے اس پر کسی قسم کا ردعمل نہیں دیا مکمل خاموشی اختیار کی، البتہ اردن نے اپنی فضائی حدود سے گزرنے والے ڈرونز اور میزائل کو روکا جس کا بعد میں اعتراف بھی کیا۔
اب آتے ہیں ہم حماس یعنی تحریک مزاحمت کے ردعمل کی طرف جس نے ایران کی طرف سے کیے جانے والے حملے کو سراہا، ساتھ اس حملے کو ایران کا آئینی، قانونی اور اصولی حق قرار دیا۔ البتہ حماس نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی غزہ کی پٹی میں جاری صہیونی جرائم سے توجہ ہٹانے کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک لحاظ سے ایسا ہوا بھی ہے۔ اسرائیل کا ایران حملے کے بعد غزہ پر جارحیت کا سلسلہ جاری رہا، ایک ہی دن میں 68 فلسطینیوں کو شہید اور 94 کو زخمی کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ عالمی عدالت اسرائیل کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرار داد منظور ہوچکی ہے لیکن دونوں عالمی ادارے اسرائیل پر پابندیاں لگانے کے بجائے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ خود اقوام متحدہ کا ادارہ یونیسیف بتا رہا ہے کہ غزہ میں ہر 10 منٹ میں ایک بچے کو شہید یا زخمی کیا جارہا ہے، ہر روز غزہ میں 70 بچے زخمی یا شہید ہورہے ہیں۔ غزہ کے بچوں کو معذوری اور موت سے بچانے کا واحد راستہ پائیدار جنگ بندی ہے، جس کے لیے اقوام متحدہ کو اسرائیل پر دبائو بڑھانے کی حتمی کوشش کرنی چاہیں۔ اسرائیل پر ایران کا حملہ ایران سے پہلا براہ راست حملہ تھا اس حملے میں اس بات سے قطع نظر کے نقصان کتنا اور کیا ہوا؟ ایران کی اس جرأت مندانہ کوشش کو ستائش کی بہرحال ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ غزہ پر اسرائیلی بمباری اور نسل کشی کے جواب میں نہیں تھا۔ اس حملے سے ایران کی ممکنہ صلاحیتوں کا اظہار ہوتا ہے جسے وہ آئندہ کسی بھی جنگ میں استعمال کرسکتا ہے۔ حماس کے بقول ایران کا حملہ ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ میں شرکت کا اظہار ہے۔ اہم یہ ہے کہ اس حملے سے غزہ پر اسرائیلی نسل کشی روکنے کے لیے دبائو ڈالنا ممکن ہوگا؟ دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کچھ مبصرین کے نزدیک ایک ٹریپ تھا۔ ایران امریکا پر یہ الزام بھی عائد کرتا ہے کہ اس کے لیے امریکا نے اسرائیل کو گرین سگنل دیا تھا۔
غزہ پر مسلسل ساری دنیا کی نظریں اور جنگ بندی کے لیے دبائو کو کسی دوسری طرف متوجہ کرنے کے لیے یہ ایک اہم حکمت عملی تھی۔ تا کہ بحران کا دائرہ بڑھ جائے اور زیادہ ممالک ملوث ہوں تو اسرائیل پر دبائو اور بوجھ بٹ جائے۔ اسرائیل کی خواہش یہ بھی ہوگی کہ ایران کے براہ راست جواب دینے سے ایران کو گھیر کر مارا جائے اور امریکا اور دیگر اتحادیوں کو اس کے لیے ساتھ دینے پر آمادہ کیا جائے۔ فی الحال امریکا نے اس کی خواہش پوری کرنے کے لیے معذرت کرلی ہے۔ امریکا میں الیکشن کا معرکہ درپیش ہے جس میں جوبائیڈن غیر یقینی صورت حال میں مبتلا ہیں۔ الیکشن بھی جنگ روکنے اور نہ روکنے کے لیے ایک ٹول ہے۔ یہ ہمیں امریکا اور اسرائیل کی جمہورتوں میں نظر آرہا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر 2017ء سے سنگین کرپشن کے الزامات ہیں۔ اُن کے مخالفین کہتے ہیں کہ غزہ کی جنگ بندی نیتن اس لیے قبول نہیں کررہے کہ پھر ان پر استعفا اور کرپشن کے مقدمات کا کٹا کھول دیا جائے گا جو نیتن یاہو نے بڑی کوشش سے باندھ کر رکھا ہے۔ نیتن یاہو کہتے ہیں کہ ملک کو حالت جنگ میں رکھ کر انتخابات کا سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔ سو حالت جنگ جتنی طول کھینچے اچھا ہے، اسرائیل کے لوگ رائے عامہ کے جائزے کے مطابق غزہ کی جنگ کو ’’منطقی انجام‘‘ تک پہنچانے کے حق میں ہیں۔ یہ منطقی انجام فلسطین کی آزاد ریاست (جس کا دارالحکومت القدس ہو) کا قائم ہونا ہی ہوسکتا ہے۔