اسرائیل حماس جنگ کو چھے ماہ گزر گئے لیکن کسی اسلامی ملک نے ریاست کے طور پر اسرائیل کو کچھ نہیں کہا اور نہ ہی حملہ کر سکا، اس کی ہمت کہاں سے لائیں گے۔ فلسطینیوں کی میت ہی میت غزہ رفح میں بکھری ہوئی ہیں لیکن آج جو لوگ ایران سے یہ معلوم کر رہے ہیں اُس نے اسرائیل پر حملے میں ایک مچھر بھی مارا ہے کہ نہیں وہ پہلے یہ بھی بتاتے چلیں کہ چھے ماہ کے دوران اسرائیل نے 45ہزار فلسطینیوں شہید کیا تو اُس کے خلاف سارے اسلامی ممالک نے کیوں چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ یہ سچ ہے کہ تہران اس جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہتا تھا، لیکن سفارتخانے پر حملے کے بعد وہ کمزوری دکھانے کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سفارتخانے پر حملے کے بعد کسی اسلامی یا غیر مسلم ملک نے اسرائیل کی کھل کر مذمت نہیں کی تھی اس کے بر عکس عالم اسلام عید اور عمرے، میں مصروف نظر آرہا ہے۔ اسرائیل نہ ختم ہونے والی بمباری جاری رکھے ہوئے ہے اور اب امریکا برطانیہ بھی اس بمباری میں شامل نظر آرہے ہیں۔
ایرانی اخبارات کو چار اپریل، 2024 کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے دفتر کی طرف سے فراہم کی گئی ایک تصویر میں سپریم لیڈر کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے میں مرنے والے پاسداران انقلاب کے سات اہلکاروں کے تابوت پر دعا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اس سے یہ تاثر واضح تھا ایران کو خطے میں سلامتی کے خدشات کا سامنا ہے۔ دنیا بھر سے یہی اطلاعات آرہی تھیں کہ تیسری جنگ ِ عظیم کا خدشہ ہے، چھے ماہ سے مشرق وسطیٰ دنیاکے خطرناک ترین علاقوں میں سے ایک ہے اور اب یہ کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ فوری بعد تہران سے ایران کے رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی تقریر میں انہوں نے پہلی بار کھلے عام متنبہ کیا کہ ایران گزشتہ ہفتے دمشق میں قونصل خانے کی عمارت پر حملے کی سزا اسرائیل کو دے گا۔ یہ آیت اللہ کی جانب سے اعلانِ جنگ تھا جس کا ایران کو حق تھا اس کے بعد واشنگٹن کی جانب سے صدر بائیڈن کا عوامی سطح پر بیان سامنے آیا جو آیت اللہ کا جواب کہا جاسکتا ہے، بائیڈن نے اعلان کیا کہ ایران کے حملے کی صورت میں اسرائیل کو امریکا کی ’آہنی‘ حمایت حاصل ہو گی۔ انہوں نے اپنے اعلان میں اس بات کو دوبارہ کچھ اس طرح کہا کہ ’میں پھر کہوں گا ’’آہنی حمایت‘‘۔ اس سے یہ پتا چلا کہ صورت حال اس سے کہیں زیادہ سنگین تھی جو دکھائی دی۔ بائیڈن کا بیان صرف اسرائیل کی حمایت نہیں ایران کے لیے ایک انتباہ تھا کہ حملے کی صورت میں اسے نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکا سے بھی مقابلہ کرنا پڑے گا۔
امریکا ایران کے پہلے بیان کو یہ سمجھ رہا تھا کہ ایرانی رہنما پاسداران انقلاب سمیت عوامی غصے کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے انہوں جاندار الفاظ کا استعمال کیا۔ اس سے ان کا مقصد غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں پر ان کی سابقہ تنقید اور فائر بندی کے مطالبے کا حساب برابر کرنا بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ ایسا نہ ہو کہ ایران یا اس کے آلہ کار اس نتیجے پر پہنچیں کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے اس امریکی حمایت میں کمی آئی ہے۔
پانچ اپریل، 2024 کو تہران میں لوگ ایرانی پاسداران انقلاب کے سات اہلکاروں کی آخری رسوم میں شریک تھے جہاں یہ اعلان آیت اللہ نے کیا کہ دمشق میں حملے کی سزا دی جانی چاہیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ایران جواب نہیں دیتا تو ایک جانب اس کی قیادت کی ساکھ متاثر ہو تی اور دوسری طرف اسرائیل کو اس طرح کے مزید حملوں کے لیے کھلی چھوٹ حاصل ہو جاتی۔ اس لیے ایران کو ہر صورت حملے کی ضرورت تھی اور ایران نے اسرائیل پر حملہ کر کے اپنا حق استعمال کیا جس کا حق اس کو اقوام ِ متحدہ کے چارٹر کی شق 51 کے تحت حاصل تھی۔ ایران کے حملے کے بعد بھی امریکا اور اسرائیل کے اتحادیوں نے ایران کی شدید مذمت کی ہے اور فوری طور پر اسرائیل کو جدید اسلحہ بھیج دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اپنے ملک افواج بھی اسرائیل کی مدد کے لیے بھیج دی ہے۔ ایرانی حملے کے مقاصد کسی حد تک پورے ہو چکے ہیں۔
یہ بات پڑھنے والوں کو حیران کر دے گی کہ اسرائیل اور ایران 1979 سے پہلے تک اتحادی تھے۔ ایران کے سابق بادشاہ رضا شاہ پہلوی اسرائیل کے دوست اور فلسطین و کشمیریوں کی آزادی کے سخت دشمن تھے تاہم ایران میں انقلاب کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے کیونکہ اسرائیل کی مخالفت ایرانی حکومت کے بیانیے کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ ایران اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کا خاتمہ چاہتا ہے۔ ملک کے رہبر ِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اسرائیل کو اس سے قبل ’کینسر کی رسولی‘ سے تشبیہ دی تھی جس کا ’بلاشبہ خاتمہ بھی کیا جائے گا اور یہ تباہ بھی ہو گا‘۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران اس کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے اور یہ بات ایران کے بیان سے بھی عیاں ہے۔ اس کے علاوہ ایران کی جانب سے پراکسی گروہ بھی بنائے گئے ہیں جو اسرائیل کو تباہ کرنے کی بات کرتے ہیں اور ساتھ ہی ایران فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس و الجہاد اور لبنانی عسکریت پسند گروہ حزب اللہ کی ہر طرح سے مدد کرتا ہے۔ اسرائیل کہتا ہے کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کوشاں ہے لیکن ایران اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے لیے موجودہ حالات میں ایران پر حملہ کرنا آسان ہے اس سلسلے میں اسرائیل کی جنگی کابینہ کے اجلاس میں اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ ایران کی جانب سے ڈرون اور میزائل حملے پر کیسا ردعمل دیا جائے۔ تاہم اجلاس کے بعد اسرائیل نے یہ نہیں بتایا کہ اس میں کیا فیصلے کیے گئے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور جرمنی سمیت اسرائیل کے مغربی اتحادیوں نے اسے تحمل کا مشورہ دیا ہے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سابق سفیر ڈینی ڈینن نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ ’مکمل جنگ کا آغاز‘ نہیں کرنا چاہتا لیکن سنیچر کو کیے گئے ڈرون اور میزائل حملے کے جواب میں ’کارروائی کا دانشمندانہ طریقہ تلاش کررہے ہیں‘ اسرائیلی دفاعی افواج کے چیف آف اسٹاف ہرزی حلوی نے کہا کہ ایران کے حملوں کا ’جواب‘ دیا جائے گا۔ رائٹرز کے مطابق منگل صبح کو اسرائیل کے وزیر خارجہ کاٹز نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ’میزائلوں اور ڈرونز حملے کے عسکری جواب کے ساتھ ساتھ میں ایران کے خلاف سفارتی حملے کی قیادت کر رہا ہوں‘۔ کاٹز نے کہا کہ انہوں نے 32 ممالک کو خطوط بھیجے اور متعدد ہم منصبوں سے بات کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ’ایران کے میزائل پروگرام پر پابندیاں لگائی جائیں اور پاسداران انقلاب کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے، جو کہ ایران کو روکنے اور کمزور کرنے کے لیے ایک طریقہ ہے‘۔ اس پوری صورتحال سے اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر دنیا کو بتا دیا ہے کہ 45ہزار فلسطینیوں کو شہید کرنے والا اب بھی دنیا کو اپنے حکم پر چلانے کی طاقت رکھتا ہے اور دنیا اس کی غلام ہے لیکن ایران دنیا میں اسرائیل کو آقا تسلیم نہیں کرے گا جب کہ عالم اسلام اسرائیل کے آگے سجدہ ریز ہے۔