الحمدللہ حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی کے تنظیمی الیکشن میں پانچ سال کے لیے جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر منتخب ہوگئے۔ وہ 15 اپریل کو اپنے منصب کا حلف اٹھا کر اپنے کام کا آغاز کردیں گے۔ بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ارکان جماعت کی طرف سے امیر جماعت منتخب کیے جانے پر اپنے اولین خطاب میں فرمایا تھا۔ ’’آپ جب کسی شخص کو کسی عظیم مقصد کے لیے اپنا امیر منتخب کرتے ہیں تو اس کی اطاعت کرکے دراصل آپ اپنی ہی طاقت کو مضبوط کرتے ہیں اور جتنی کم اطاعت کا اظہار آپ کی طرف سے ہوگا اتنا ہی آپ کا بنایا ہوا امیر کمزور ہوگا اور اسی قدر اس کی کمزوری کی وجہ سے آپ کی جماعتی طاقت کمزور ہوگی۔ میں یہ دیکھ کر اکثر خوش ہوتا ہوں کہ ہماری جماعت میں شخصیت پرستی اور ذہنی غلامی موجود نہیں ہے بلکہ ہر شخص کے اندر اچھی خاصی نقادانہ نظر موجود ہے اور سب سے بڑھ کر آپ کی تنقیدی نگاہیں مجھ پر اٹھتی ہیں۔ لیکن یہ خیال رکھیے کہ جتنی کڑی تنقیدی نگاہ آپ مجھ پر ڈالتے ہیں اور آپ کا فرض ہے کہ ایسا کریں اتنی ہی کڑی تنقیدی نگاہ میں آپ پر ڈالتا ہوں اور میرا بھی فرض ہے کہ ایسا کروں۔ آپ سے امر کی اطاعت اور ضابطے کی پابندی اور رضا کارانہ خدمت کی ادائیگی میں جتنی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اتنا ہی میں اپنے آپ کو بے بس پاتا ہوں اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ایسی بندوقوں سے کام لے رہا ہوں جو لبلبی دبانے سے بھی فائر نہیں کرتیں۔ برعکس اس کے جب میں آپ کے اندر اطاعت اور تطوع اور باضابطگی کے اوصاف پاتا ہوں اور یہ دیکھتا ہوں کہ آپ ایک آواز پر جمع کیے جاسکتے ہیں تو میرا دل قوی اور ہمت بلند ہونے لگتی ہے اور میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ اب مجھے وہ طاقت حاصل ہورہی ہے جس سے اس عظیم مقصد کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرسکیں‘‘۔
ہمیں اُمید ہے کہ حافظ نعیم الرحمن بانی جماعت کے اس اولین خطاب کو اپنے لیے زاد راہ بنائیں گے اور اپنی پانچ سالہ مدت امارت میں ارکان جماعت اور بالواسطہ طور پر پوری قوم کی توقعات پر پورا اتریں گے بلکہ دیکھا جائے تو امیر جماعت کراچی کی حیثیت سے وہ اس تجربے سے گزر چکے ہیں۔ ارکان جماعت اور کارکنوں نے انہیں تنقید کی نظر سے بھی دیکھا اور ان کی آواز پر والہانہ لبیک بھی کہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کو کراچی میں نہایت فعال اور متحرک قوت بنادیا۔ اہل کراچی اس قوت کے گرویدہ ہوگئے۔ انہوں نے بلدیاتی انتخابات اور بعدازاں عام انتخابات میں جماعت کی بھرپور حمایت کی لیکن چونکہ عالمی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے زیر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے یہ طے کررکھا ہے کہ جماعت اسلامی کو آگے نہیں آنے دینا اس لیے جماعت جیت کر بھی ہار گئی اور وہ لوگ جو کسی شمار و قطار میں بھی نہ تھے خفیہ طاقتوں کے تعاون سے ہار کر بھی جیت گئے۔ لیکن جماعت اسلامی محض ایک سیاسی جماعت نہیں کہ اس کی کامیابی و ناکامی کا انحصار انتخابات پر ہو اور اسے انتخابات میں ہرا کر بے اثر کردیا جائے۔ جماعت اسلامی ایک ہمہ گیر اسلامی و اصلاحی تحریک ہے جو ہر قسم کے نامساعد حالات میں کام کرنا جانتی ہے۔ اس لیے ناموافق اور دھاندلی زدہ انتخابی نتائج کے باوجود جماعت اسلامی متحرک اور فعال ہے اور ارکان جماعت نے اپنے تنظیمی انتخابات میں حافظ نعیم الرحمن کو اپنا مرکزی امیر منتخب کرلیا ہے۔ جو اس بات کی علامت ہے کہ مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ حق کے راستے میں ہماری جدوجہد جاری ہے اور جاری رہے گی۔ خدمت خلق جماعت اسلامی کا اہم ترین شعبہ ہے، اس شعبے میں جماعت اسلامی کی الخدمت فائونڈیشن عالمی سطح پر اپنی کارکردگی منوا رہی ہے۔
امیر جماعت اسلامی کا انتخاب ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب ملک میں غیر شفاف انتخابات کے نتائج کی گرد ابھی تک چھائی ہوئی ہے، پورے عالمی میڈیا نے انتخابی نتائج کو بوگس، جعلی اور انجینئرڈ قرار دیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں مقتدر طاقتوں نے کبھی بھی عوام کے حق رائے دہی کو تسلیم نہیں کیا اور جمہوریت کے نام پر جمہوریت کی مٹی پلید کی ہے۔ اس میں بنیادی کردار جماعت اسلامی کو چھوڑ کر بلا استثنا تمام سیاسی جماعتوں کا ہے جو بظاہر جمہوریت کا دعویٰ تو کرتی ہیں اور ملک میں جمہوری نظام بھی قائم کرنا چاہتی ہیں لیکن ان کا عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان سیاسی جماعتوں نے نہ اپنے اندر جمہوریت قائم کی ہے اور نہ وہ ملک میں جمہوری نظام لانے کی روادار ہیں۔ عوام انتخابات میں ووٹ کسی اور کو دیتے ہیں اور نتیجہ کسی دوسرے کے حق میں مرتب کیا جاتا ہے۔ اس دھاندلی میں الیکشن کمیشن مقتدرہ اور مقتدرہ سے گٹھ جوڑ کرنے والی بڑی سیاسی جماعتیں شریک ہوتی ہیں اور جمہوریت کے نام پر جمہوریت کو ناکام بنانے کا کارنامہ انجام دیتی
ہیں۔ اب کی دفعہ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ مسلم لیگ (ن) ہو یا پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم، کوئی جماعت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ الیکشن جیت کر اقتدار میں آئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ان جماعتوں کو حقیقی عوامی نمائندگی حاصل نہیں تو وہ حکومت میں رہ کر عوام کی نمائندگی و ترجمانی کا حق کیسے ادا کرسکیں گی؟
امیر جماعت اسلامی کا انتخاب حسب سابق جس بے لاگ اور شفاف جمہوری انداز میں ہوا ہے اس نے ملک کی تمام خاندانی و موروثی سیاسی جماعتوں کو آئینہ دکھا دیا ہے اور واضح کردیا ہے کہ قومی زندگی میں ان کی حیثیت ایک ’’پلے بوائے‘‘ سے زیادہ نہیں ہے۔ ملک سے اقتدار پر قابض خفیہ طاقتیں ان سیاسی جماعتوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں اور جب چاہتی ہیں انہیں اٹھا کر باہر پھینک دیتی ہیں اور وہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ لہراتے ہوئے ملک بدر ہوجاتی ہیں۔ پھر جب موقع ملتا ہے تو اس بیانیے کو گوروں کے قبرستان میں دفن کرکے شریک اقتدار ہوجاتی ہیں۔ جماعت اسلامی چونکہ اس شیطانی کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہتی اس لیے اب کی دفعہ اسے عوامی نمائندگی رکھنے کے باوجود منتخب قومی اداروں سے آئوٹ کردیا گیا ہے کیونکہ خفیہ طاقتیں اور ان کی سرپرست عالمی اسٹیبلشمنٹ خوب جانتی ہیں کہ جماعت اسلامی کا ایک سینیٹر بھی پوری سینیٹ پر بھاری رہتا ہے اور اس کا ایک رکن اسمبلی بھی پوری قومی اسمبلی کو آگے لگا سکتا ہے۔
بہرکیف حافظ نعیم الرحمن کو جماعت اسلامی کا مرکزی امیر منتخب ہونے پر خوش آمدید۔ اے آمدنت باعث آبادیِ ما۔ ان کے سامنے پہاڑ جیسے چیلنج موجود ہیں جنہیں وہ اپنی فعال اور متحرک قیادت کے ذریعے سر کرسکتے ہیں۔