بہاول نگر واقعہ کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں ہے لیکن یہ روایتی پولیس کلچر کا ردعمل ہے جو بحرحال کسی طاقتور کی طرف سے ہی آسکتا تھا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پولیس شریفانہ طریقے سے تفتیش کی غرض سے وہاں گئی ہو اور جواب میں فوج نے ان پر لشکر کشی کردی ہو۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے متاثرہ گھر میں زبردستی داخل ہو کر مرد و خواتین کو تشدد اور بدتہذیبی کا نشانہ بنایا۔ فوجی حوالدار کی بوڑھی والدہ کو زد و کوب کیا اور سینے پر ٹھڈے مارے۔ متاثرہ فیملی کے فوج میں ملازم ایک فرد نے اپنے سینئر فوجی افسر کو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی اطلاع دی۔ متعلقہ آفیسر نے معلومات کے حصول کے بعد اپنے بالائی افسر کو اعتماد میں لیا اور پولیس کو جوابی ردعمل دیا جس کا مشاہدہ پوری قوم کر چکی ہے۔ مشاہدہ کیا جائے تو پنجاب میں شاید ہی کوئی پولیس اسٹیشن ایسا ہو جو قانون کے مطابق ایمانداری سے اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہو۔ یہاں آسانی سے ایف آئی آر درج ہوتی ہے نہ بروقت اور میرٹ پر شکایات کا ازالہ ہوتا ہے۔ ایس ایچ او سے لے کر کانسٹیبل تک سب رشوت کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں۔ ایک فریق سے پیسے لے کر دوسرے کو تشدد کا نشانہ بنانا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ یہاں مدعی کارروائی کے لیے اور ملزم بچاؤ کے لیے پولیس کو نذرانہ پیش کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ پولیس کی وردی اہلکاروں کی اے ٹی ایم بنی ہوئی ہے۔ پولیس کا رشوت کلچر انصاف کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ بروقت اور درست زاویے سے شہادت اکٹھی ہو کر عدالت میں پیش نہیں ہوتی جس کی وجہ سے مظلوم کی داد رسی نہیں ہو پاتی۔ ایسی کہانیاں بھی سننے میں آتی ہیں کہ تفتیشی افسر بڑی مہارت سے مدعی اور ملزم دونوں سے نذرانہ وصول کرتا ہے۔
ہمارے ایک ڈاکٹر دوست جن کا گھر پولیس تھانے اور ڈی ایس پی آفس سے چند گز کے فاصلے پر ہے کچھ عرصہ پہلے ان کے گھر مسلح افراد نے ڈکیتی کی واردات کی۔ راقم نے خود ان کی درخواست لکھی اور فرنٹ ڈیسک میں جمع کروائی۔ متعلقہ ایس ایچ او نے فرمایا کہ آپ لوگ بالکل بے فکر ہو جائیں ہم دیکھتے ہیں۔ مدعی کو لولی پاپ دے کر درخواست کو فریقین کے درمیان لین دین کا تنازع بنا کر نمٹا دیا گیا۔ پولیس نے کلینک کے سی سی ٹی وی کیمرہ کے ریکارڈ کا مشاہدہ کرنے اور محلے سے شہادت جمع کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ پولیس کے اس رویے سے ایماندار اور انسان دوست ڈاکٹر صاحب بہت دل گرفتہ ہوئے۔ سماج میں مجرم ذہنیت کی پرورش میں روایتی پولیس کلچر کا بہت دخل ہے۔ اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو معاشرے میں موجود بدمعاشوں کی آپ بیتیوں کا مشاہدہ کر کے دیکھ سکتا ہے۔
بہاول نگر واقعہ نے پولیس کلچر کو بری طرح عیاں کر دیا ہے۔ فوج کا ردعمل مثبت تھا یا منفی؟ سوال یہ نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ کیا پولیس بطور ادارہ اس واقعے سے سبق حاصل کرکے اپنا قبلہ درست کرنے کے لیے تیار ہوگی؟ رہی بات فوج کے خلاف پروپیگنڈے کی تو فوج کی سابق بینفشری سیاسی جماعت کے فالورز کے علاوہ عام شہری اس واقعے سے بہت خوش ہیں جو ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اہم ترین ادارے کے لیے انتہائی لمحہ فکر ہے۔ ہم پولیس کو درپیش اندرونی و بیرونی مسائل سے بھی انکاری نہیں ہیں ہم ان کے جلد از جلد حل کے لیے آواز بلند کرتے آرہے ہیں۔ پولیس اور فوج کے درمیان معاملات طے ہو جانے کے بعد زندہ باد کے نعروں کا تبادلہ کافی نہیں ہے۔ اصل کام ادارے پر عوام کے اعتماد کی بحالی ہے جو دراصل انصاف کی فراہمی کی طرف اہم پیش رفت ہو گی۔