وطن عزیز کے صوبہ پنجاب کے ضلع بہاولنگر میں پیش آنے والے واقعے نے ملک بھر میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ ایک طرف جہاں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں فوجی اہلکاروں کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر تشدد کے دعوے کیے گئے ہیں، وہیں دوسری طرف دونوں اداروں کی جانب سے ان الزامات کی تردید اور معاملے کی مشترکہ تحقیقات کا اعلان کیا گیا ہے۔ واقع کی تفصیلات جو بی بی سی نے رپورٹ کی ہے کہ: جس میں اسے ایک اہلکار نے اس معاملے کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ اس دوران ’وردی والوں‘ کی جانب سے ہونے والے تشدد کے باعث زخمی ہوئے جس کے بعد انہیں طبی امداد کے لیے متعلقہ اسپتال پہنچایا گیا۔
موقع پر موجود پولیس اہلکاروں کے مطابق پنجاب کے ضلع بہاولنگر میں بدھ کے روز تقریباً 12 بجے کے بعد تھانہ ’سائٹ ڈویژن اے‘ کے باہر پاکستانی فوج اور رینجرز کے اہلکار سرکاری گاڑیوں میں داخل ہوئے۔ بہاولنگر کے پولیس اسٹیشن ڈویژن اے میں 10 اپریل کو موجود ایک اور پولیس اہلکار نے بتایا کہ وہ رینجرز اور آرمی اہلکاروں کے پولیس اسٹیشن پہنچنے کے سات سے آٹھ منٹ بعد تھانے پہنچے اور اْس وقت رینجرز اور فوج کی گاڑیاں وہاں موجود تھیں۔ اس نے دعویٰ کیا کہ رینجرز اور فوجی اہلکاروں نے پولیس اسٹیشن کے اطراف لگے ہوئے کیمرے توڑ دیے اور ڈی وی آرز بھی اپنے قبضے میں لے لیں۔ بہاولنگر کے اس تھانے میں موجود دو اہلکاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس اسٹیشن ڈویژن اے میں فوجی اہلکاروں نے نہ صرف توڑ پھوڑ کی بلکہ وہاں پہلے سے حوالات میں بند معطل شدہ پولیس اہلکاروں ایس ایچ او رضوان عباس، اے ایس آئی محمد نعیم، کانسٹیبل محمد اقبال اور علی رضا پر ’بد ترین تشدد‘ بھی کیا۔
پنجاب پولیس کی جانب سے اب تک اس پورے واقعے کی مکمل تفصیلات منظر ِ عام پر نہیں لائی گئی ہیں تاہم سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے ایک پیغام میں یہ ضرور کہا گیا تھا کہ ’بہاولنگر میں پیش آنے والے معمولی واقعے کو سوشل میڈیا پر سیاق و سباق سے ہٹ کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ یہ غلط تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسے پاک فوج اور پنجاب پولیس کے درمیان کوئی محاذ آرائی ہوئی ہے۔ اس ضمن پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے کہا ہے کہ افسوسناک واقعہ کو فوج اور پولیس حکام کی مشترکہ کوششوں سے فوری حل کرلیا مگر مخصوص عناصر نے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا شروع کردیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ شرپسند عناصر کی جانب سے مخصوص مقاصد کے لیے ریاستی اداروں اور سرکاری محکموں کے درمیان تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، قوانین کی خلاف ورزی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذمے داران کا تعین کیا جائے گا۔ آئی ایس پی آر کا مزید کہنا ہے کہ حقائق کا پتا لگانے کے لیے ذمے داروں کی نشاندہی کی جائے گی، تحقیقات کے لیے سیکورٹی اور پولیس اہلکاروں پر مشتمل مشترکہ انکوائری کی جائے گی۔
اس واقعے نے پاکستان کے دو اہم ترین اداروں، فوج اور پولیس کے درمیان تعلقات پر ایک بار پھر کئی سوالات پیدا کردیے ہیں اور ایک پھر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ملک میں ہر کچھ عرصے کے بعد اس طرح کے واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں کہ جس کے بعد پھر افہام وتفہیم سے بات ہوکر بات ختم ہوجاتی ہے۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ اگرچہ دونوں اداروں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ہم آہنگی کا عزم ظاہر کیا ہے، لیکن اس واقعے نے اس بات کو بھی واضح کر دیا پولیس ہو یا کوئی اور ادارہ وہ اپنے حصے کا کام نہیں کررہا اور طاقت کے زعم میں مبتلا ہے اور اس طرح کے واقعات خطرناک رجحان ہے۔ اس معاملے کی شفاف اور جلد از جلد تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ حقائق سامنے آ سکیں اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ اس کے علاوہ، اس بات کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے کہ ایسے واقعات مستقبل میں دوبارہ نہ ہوں۔