سفارش اور میرٹ

471

احمد ندیم قاسمی کے ایک دوست کی بیٹی نے ایم اے کا امتحان دیا تو پتا چلا کہ امتحانی پرچوں کی جانچ کے لیے تمام پرچے صوفی غلام مصطفی تبسم کے پاس بھیجے گئے ہیں قاسمی صاحب کو ان کے دوست سفارش کے لیے صوفی صاحب کے گھر لیکر پہنچے، سلام دعا کے بعد صوفی صاحب اپنے کمرے کے اندر چلے گئے، جب کافی دیر تک وہ اندر سے تشریف نہ لائے تو قاسمی صاحب کو بہت افسوس ہوا، اتنے میں صوفی صاحب ایک امتحانی پرچہ لیکر باہر آئے اور اسے قاسمی صاحب کے ہاتھ میں دیگر کہا ’’فرمائیے اس میں کتنے نمبر دے دوں؟‘‘ قاسمی صاحب بہت حیران ہوئے اور پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں اس کام کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں، صوفی صاحب نے بتایا کہ بھئی میرے پاس کل بتیس امتحانی پرچے آئے، اکتیس پرچوں کے لیے پہلے ہی میرے پاس سفارشیں اب تک آچکی ہیں، ظاہر ہے کہ اس آخری پرچے کے سلسلے میں آپ بھی تشریف لائے ہوں گے۔

پاکستان کے حالات اب تبدیل ہو رہے تھے، یہ تو تھی صورتحال جو تیزی سے بدل رہی تھی، پنجاب جو تقسیم سے پہلے پورے ہندوستان میں تہذیب و ثقافت علم کے ساتھ تعلیم کے میدان میں مسلم اکثریتی علاقوں کے واحد مرکز کی حیثیت رکھتا تھا، پنجاب علم ثقافت کے میدان میں نہ صرف پورے ہندوستان میں نمایاں مقام رکھتا تھا جب کہ سیاسی میدان میں۔ مشرقی بنگال، تمام ہندوستان میں مسلم اکثریتی علاقے کی نمائندگی رکھنے والا واحد مرکز تھا کیونکہ پنجاب زرعی سرزمین رکھنے کی وجہ سے جاگیروں میں تقسیم تھا جہاں پر جاگیردار سیاست کو اپنی مرضی کے تحت اختیار کرتے تھے اور اپنے علاوہ کسی کو بھی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہ دیتے غیر منقسم پنجاب کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ فوج میں ان کا بہت بڑا حصہ تھا۔ مگر ان تمام خصوصیات پر پنجاب کے علم وثقافت کو نمایاں حیثیت حاصل تھی جس کی وجہ سے پنجاب نے علم و ادب میں بہت بڑا مقام حاصل کر لیا تھا۔ یہی وجہ ہے پنجاب نے اردو ادب کے بہت بڑے بڑے نام پیدا کیے اس طرح ادب کی مختلف اصناف میں پنجاب کی خدمات کو پورے ہندوستان میں بہت قدر و منزلت حاصل تھی۔ جب ہندوستان اور پاکستان نے آزادی حاصل کی تو پاکستان کے حصہ میں فوج اور علم و ثقافت کا بہت بڑا ورثہ ملا مگر ملک کے اداروں کو چلانے والوں کی بہت شدت سے کمی محسوس ہوئی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہندوستان کے اقلیتی علاقوں کے مسلمان جو وہاں پر اپنے اپنے شعبوں میں اہم مقام رکھتے تھے پاکستان آگئے پاکستان آکر انہوں نے بڑے خلوص نیت اور بھر پور جذبہ سے پاکستان کے اداروں کی تعمیر شروع کردی اور پاکستان کے تمام اداروں کو بڑی محنت سے مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا شروع کر دیا یہ ادارے جو بغیر کسی انفرا اسٹرکچر کے تھے ان میں کسی قسم کی تنظیم اور نظام نہیں تھا۔ ان میں تنظیم اور انتظامات کے نظام کو قائم کر کے اداروں کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا شروع کر دیا۔ ان صاحب ہنر افراد نے اپنے آپ کو پاکستان اور اس کے اداروں کے لیے تن من دھن سے تعمیر کا آغاز کیا اس کے لیے اصول اور ضابطے بنائے، ان کو ایک نظام دیا، بغیر کسی کی سہولت اور وسائل کے ان اداروں کو دن رات بے سرو سامانی کے عالم میں دیوانہ وار بنانے میں جت گئے۔ ان کو دھن یہ سوار تھی پاکستان کو تمام مسلمان ملکوں کا قلعہ بنا دیا جائے جو دنیا کے تمام مسلمان ملکوں کی رہنمائی کرے۔

وہ ہندوستان کا بھی ہر شعبہ میں مقابلہ کرنے کی حیثیت میں رہے کیونکہ کے یہ ہنر مند ہندوستان کے مختلف شعبوں میں کام کر کے بہت تجربہ کار ہو چکے تھے اس لیے وہ اپنی تمام توانائیاں اور تجربہ پاکستان کے اداروں کے تعمیر و ترقی کے لیے وقف کر چکے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ پاکستان کو ہندوستان کے برابر لاکر کھڑا کر دیں انہوں نے پاکستان کے اداروں کی تعمیر ایک چیلنج سمجھ کر قبول کی تھی انہوں نے اپنی ذات کو یا اپنی ذات سے وابسطہ افراد کو بھی پاکستان کی محبت میں فراموش کر دیا اور پاکستان کی تعمیر دل و جاں سے کرتے رہے اس جوش جنوں میں وہ صرف یہ مقصد سامنے رکھتے تھے کہ وہ کون ہے جو پاکستان کی تعمیر میں ان کا ساتھ دے سکتا ہے اس طرح انہوں نے مقامی لوگوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا ان کو بھی اپنے تجربات سے آگاہی دلواتے رہے۔ یعنی ان کی بھی تربیت کرنے کے مواقع پر وہ اپنے کسی عزیز رشتہ دار کو بھی اس کام میں شامل کرنے کے روادار نہیں تھے اگر اس کی اہلیت میں کسی قسم کی کمی ہو۔ اس طرح انہوں نے ان اداروں کی تعمیر کے ساتھ اس کی ساکھ کو برقرار رکھنے کی خاطر اپنے کسی عزیز رشتہ دار کو ذرا بھی فوقیت نہ دی بلکہ مقامی لوگوں پر زیادہ محنت کر کے ان کو پاکستان کے اداروں کو چلانے کے قابل بنایا ان کا مقصد تھا یہ سب ہمارے پاکستانی بھائی ہیں اس پاکستان کے اداروں پر ان کا بھی بہت حق ہے، مقامی افراد کو اپنے ساتھ ساتھ رکھ کر ان کو بھی ہنر مند بنانا شروع کردیا اس طرح پاکستان کے اداروں کے ساتھ ساتھ انہوں نے مقامی لوگوں کی تعمیر تشکیل کی اور ہنر مند لوگوں کو ان اداروں میں کام کرنے کی تربیت بھی فراہم کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان کے ادارے جو بغیر کسی وسائل کے بنائے گئے تھے ہندوستان کے ہر اداروں ہر شعبہ میں مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آگئے یہی وجہ ہے کہ پاکستان ابتدائی دور میں تیزی سے ترقی کرنے لگا اور مختلف شعبوں میں پاکستان نے ہندوستان کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا، ابتدائی زمانے میں پاکستان ایشیاء میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والا ملک بن گیا۔ حکومت کے مختلف شعبہ اور وزارتوں کے نظام بغیر کسی وسائل کے بنائے ان وزارتوں کے ہر شعبہ کو بہترین نظام سے ہمکنار کیا جب کہ ان اداروں کی تعمیر تشکیل بغیر کسی وسائل کے بڑی بے سرو سامانی میں ان کو مضبوط بنیادوں پر قائم کیا۔ اس وقت ان تمام اداروں کو خلوص نیت پاکستان سے محبت کے جذبہ سے تعمیر و تشکیل دیکر بغیر کسی کی سفارش قائم کیا۔

موجودہ دور میں جب تمام شعبوں میں بے پناہ وسائل ہونے کے باوجود نا اہل لوگ براجمان ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی عزت اور وقار میں بھی بے پناہ کمی آگئی ہے اس کی وجہ ہے کہ ہر شعبہ میں سفارش کی وجہ سے نہ اہل لوگ چھائے ہوئے ہیں جو نہ صرف اس کے نظام کو چلانے کے لائق نہیں بلکہ ان کی نا اہلی کی وجہ سے بنا بنایا نظام بھی خراب سے خراب تر ہوتا چلا جا رہا ہے آج پاکستان کو بچانے کے لیے اس ہی طرح کے ہنر مند تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ہے جیسے کے قیام پاکستان کے وقت نظام کو بنانے کے لیے ہنر مند افراد میسر تھے جو کہ کسی سفارش کے بجائے اہلیت کے مطابق ان اداروں کا نظام چلا رہے تھے یہی پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ اہل لوگ ہر شعبہ میں نایاب ہیں۔ جو پاکستان کو با وقار ملک بناسکیں۔ اس کے لیے صاحب اختیار کو خلوصِ کا حامل ہوتا لازمی ہے۔