عید کے پرمسرت ایام اور سندھ کے مضطرب عوام

570

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

سچ تو یہ ہے کہ ملک کی موجودہ معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال کے پیش نظر نہ جانے کیوں ہمہ وقت منفرد لہجے کے بے مثال اور اداس رتوں کے پراسرار شاعر منیر نیازی کا مذکورہ شعر ذہن میں گونجتا رہتا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ بصورت آسیب ملک پر طویل عرصے سے مسلط کردہ حکمران طبقہ مستقبل قریب بلکہ بعید میں بھی مقتدرہ کی کامل سرپرستی میں اسی طرح سے عوام کا خون چوستا رہے گا۔ مہنگائی، بدامنی کے ہاتھوں متاثرہ عام لوگ اسی طرح سے آئندہ بھی اپنی زندگی تڑپ تڑپ اور سسک سسک کر گزارنے پر مجبور رہیں گے۔ برے حالات ہیں کہ تبدیل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ ایسے میں بغیر کسی انتشار، فتنہ یا ہنگامہ آرائی کے انتہائی خاموشی اور وقار کے ساتھ امیر جماعت اسلامی پاکستان کی تبدیلی کا جو مرحلہ طے ہوا ہے وہ ایک تازہ اور خوش گوار ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔ ایک ایسے ملک اور معاشرے میں جہاں پر معمولی معمولی عہدوں کے حصول کے لیے بھی سیاسی جماعتوں کے مابین جوتیوں میں دال بٹتی ہے اور سر پھٹول ہوا کرتی ہے وہاں پر ارکان جماعت نے بذریعہ انتخاب جناب انجینئر حافظ نعیم الرحمن کو اپنا نیا امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب کرکے اپنے مہکتے دمکتے شاندار روایتی اور تاریخی کردار میں ایک اور سنہرے باب کا اضافہ کیا ہے۔ سابق امیر جناب سراج الحق نے اپنے دوران اعتکاف مقیم حجاز مقدس نئے امیر کے لیے اپنے پیغام میں جس طرح سے بے لوث دعائیں دی ہیں۔ وہ اس امر کی بین غماز ہیں کہ جماعت اسلامی ملک ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی واحد ایسی جماعت ہے جہاں پر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا منصب ایک کڑی آزمائش اور بھاری ذمے داری تصور کیا جاتا ہے۔

امن وامان کی سنگینی کا آسیب تاحال اہل سندھ کے اعصاب پر مسلط ہے۔ گزشتہ روز سندھی نیوز چینل پر چلنے والی ایک رپورٹ کے مطابق امسال عیدالفطر کے بابرکت اور مقدس موقع پر بھی 100 سے بھی زائد مغوی کچے کے ڈاکوئوں کے ہاں قید میں بسر کریں گے۔ عید کے پرمسرت ایام بھی بے چارے مغوی اور ان کے اہل خانہ اضطراب اور شدید ترین کرب میں رہتے ہوئے گزاریں گے۔ کہاں ہے ہماری ریاست، اس کی رٹ اور اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے؟ عوام کو کہیں پر کسی کا کوئی وجود اور انہیں تفویض کیے جانے والے فرائض وہ نبھاتے اور ادا کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ دیہی سندھ سے مسلسل ہندو برادری کے کئی کئی خاندان اکثر بھارت نقل مکانی کررہے ہیں جنہیں سندھی اخبارات، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ ہندو برادری کی یہ نقل مکانی ظاہر ہے کہ کوئی نیک شگون ہرگز نہیں ہے کیونکہ وہ اس کی وجہ سندھ میں ایک طویل عرصے سے جاری شدید بدامنی کو قرار دے رہے ہیں۔ اس نقل مکانی سے وطن عزیز کی جو بدنامی ہورہی ہے کیا اس کا ہماری وفاقی اور صوبائی حکومت کو رتی برابر بھی کوئی احساس ہے؟ اگر ہاں تو وہ ملک کے دوسرے بڑے صوبے کے امن وامان کو بہتر بنانے کے لیے موثر، ٹھوس اور دیرپا اقدامات آخر کیوں نہیں کرتیں؟ سندھ کی ہندو برادری سے کہیں بہت زیادہ مسلمان بھی شدید ترین بدامنی سے حد درجہ متاثر ہیں لیکن خدشہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بدخواہ اور دشمن ممالک خصوصاً بھارت اس نقل مکانی کو مستقبل میں ہمارے خلاف منفی مہم چلانے اور دنیا بھر میں پروپیگنڈا کرنے کے لیے بھی استعمال کرسکتا ہے تاکہ ہمیں بدنام کیا جاسکے۔

ہفتہ رفتہ ہی ضلع شکارپور کی گاہیجا پولیس اسٹیشن کی حدود سے خضدار بلوچستان سے پنجاب جاتے ہوئے ایک وین میں سوار حساس ادارے کے 17 اہلکاروں سے ڈاکوئوں نے لوٹ مار کر کے ان سے نقدی اور موبائل فون چھین لیے۔ یہ واقعہ سندھ میں امن عامہ کی حد درجہ بگڑتی ہوئی سنگین صورت حال کا ایک واضح مظہر ہے۔ گزشتہ روز ہی سوشل میڈیا پر ایک کلپ وائرل ہوا ہے جس میں درجنوں پولیس اہلکار کچے کے علاقے میں بھاری اسلحہ سے لیس ڈاکوئوں سے یہ بے بسی کے ساتھ منت سماجت کرتے ہوئے دکھائے گئے ہیں کہ وہ فی الحال یہاں سے کہیں اور چلے جائیں کیوں کہ ہمارا ایک بہت بڑا افسر (غالباً آئی جی پولیس سندھ) یہاں دورے پر آرہا ہے۔ جواباً ڈاکو منت سماجت کرنے والے پولیس اہلکاروں سے ہنستے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ بھلے سے اپنے افسر کو یہاں آنے دو ہم اس کے ساتھ موجود کسی چھوٹے افسر کو بھنگ (تاوان) کے لیے اغوا کرکے لے جائیں گے۔ جب صورت حال اس نہج پر آن استوار ہو جائے تو اس پر مزید خاصہ فرسائی کرنا ایک بے معنی سا عمل لگتا ہے۔ اب تو لگ بھگ ہر دن ہی ڈاکو سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیو بنا کر شیئر کررہے ہیں جن میں ان کے پاس قید مغویوں، حتیٰ کہ معصوم بچوں تک کو بھی بے رحمی کے ساتھ مارتے پیٹتے دکھایا جاتا ہے۔ ایسی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئی ہیں جن میں ڈاکوئوں کے پاس جدید ترین ہتھیاروں اور ڈرون بلکہ بکتر بند گاڑی تک کی موجودگی دکھائی گئی ہے۔ ایسے میں تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا یہ بیان عوامی، سماجی اور سیاسی سطح پر شدید ہدف تنقید بنا ہے جس میں موصوف نے اس امر پر بے حد حیرت کا اظہار کیا ہے کہ آخر ڈاکوئوں کے پاس اتنے جدید ترین ہتھیار اور وسائل کہاں سے آجاتے ہیں کہ وہ کچے کے علاقے میں رہ کر بھی سندھ کے امن وامان کو تباہ کررہے ہیں۔ کیا سندھ کے معصوم وزیراعلیٰ واقعی اس حوالے سے لاعلم ہیں؟ اگر ہاں تو پھر انہیں اپنے موجودہ منصب پر رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

اب یہ امر کسی بھی طرح کے شک سے بالاتر ہوچکا ہے کہ سندھ کے کچے کے ڈاکوئوں کے اصل سرپرست سندھ اور وفاق کی اسمبلیوں میں براجمان عوامی نمائندے ہیں جنہوں نے اپنے مخصوص ذاتی مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے ان ڈاکوئوں کو پال رکھا ہے اور ایک طویل عرصے سے ان کی سرپرستی کررہے ہیں۔ اب تو یہ بات سندھ کا بچہ بچہ بھی جانتا ہے لیکن وزیراعلیٰ سندھ ایک معصوم بچے کی سی سادگی کے ساتھ کچے کے ڈاکوئوں کے پاس موجود جدید ترین ہتھیاروں کے حوالے سے اظہار حیرت کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جو بے حد لائق افسوس بلکہ قابل مذمت امر ہے اور ان کی حد درجہ غیر سنجیدگی کا ثبوت بھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سندھ کے قوم پرست عناصر کچے کے علاقوں میں ڈاکوئوں کی سرگرمیوں کو اپنے ایک مخصوص ذہنی تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور ان کے مطابق کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف کسی آپریشن کا نہ ہونا اور انہیں کھلے عام شدید بدامنی کے فروغ کی اجازت دینا دراصل طاقت ور حلقوں کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے تا کہ وہ کچے کے علاقے کی لاکھوں ایکڑ زرخیز ترین اور بے حد قیمتی زمین کو اپنے تصرف اور استعمال میں لاسکیں۔ بہرحال سندھ میں ایک عرسے سے جاری بہت زیادہ بدامنی کے پس پردہ عوامل جو بھی ہیں انہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اس کی وجہ سے متاثر عوام ہورہے ہیں اور کاروباری سرگرمیاں بھی۔