وطن عزیز پاکستان میں جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو موروثی سیاست سے مکمل پاک ہے۔ جبکہ دیگر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا جائزہ لیں تو وہ پارٹیاں کم اور پراپرٹیاں زیادہ محسوس ہوتی ہیں جہاں باپ کے بعد بیٹا بیٹی بھائی نواسہ نواسی تک اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر کے انتخاب میں کوئی شخص امیدوار نہیں ہوتا جماعت کے ارکان مکمل شفافیت کے ساتھ خفیہ رائے شماری کے ذریعے جس بھی رکن جماعت کو چاہیں ووٹ دے سکتے ہیں، البتہ ارکان کی سہولت کے لیے مرکزی شوریٰ تین نام تجویز کرتی ہے، مگر ارکان جماعت کے لیے یہ لازم نہیں کہ وہ صرف ان میں ہی سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ جماعت اسلامی کے بانی امیر سید ابوالاعلی مودودیؒ تھے، ان کے بعد میاں طفیل محمد صاحب جو آرائیں برادری سے تعلق رکھتے تھے امیر جماعت بنے، ان کے بعد قاضی حسین احمد صاحب جو ضلع نوشہرہ کے پختون تھے امیر جماعت بن گئے، ان کے بعد کراچی سے تعلق رکھنے والے سید منور حسن صاحب امیر جماعت بنے پھر ان کے بعد ضلع دیر سے تعلق رکھنے والے لالہ سراج الحق صاحب امیر جماعت منتخب ہو گئے اور اب ارکان جماعت اسلامی پاکستان نے کثرتِ رائے سے کراچی سے تعلق رکھنے والے انجینئر حافظ نعیم الرحمن کو مرکزی امیر منتخب کر لیا۔ ان سب امراء کا آپس میں کسی قسم کا کوئی رشتہ داری کا معاملہ نہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان کا یہ جمہوری عمل مکمل یکسوئی سے قائم و دائم ہے۔ جماعت کی اسی سالہ تاریخ میں کبھی بھی اس دستوری جمہوری عمل میں کوئی تعطل نہیں آیا۔ جماعت اسلامی جہاں اپنے دستوری و جمہوری عمل میں کامیابی کے ساتھ دیگر جماعتوں سے کہیں آگے جا رہی ہے وہیں اپنے ماضی کی انتہائی خوبصورت روایات کو آہستہ آہستہ ترک بھی کرتی جا رہی ہے۔ یہ روایات ہی تو دراصل جماعت اسلامی کے ماتھے کا جھومر تھیں۔
جماعت اسلامی پاکستان میں کچھ عرصہ قبل تک روایت تھی کہ جب تک امیر جماعت اسلامی پاکستان خود معذرت نہ کریں اور ان کی اس معذرت کو مرکزی مجلس شوریٰ قبول نہ کر لے ارکان جماعت مسلسل انہی کو امیر جماعت منتخب کرتے چلے جاتے تھے۔ یہ روایت امارت کے تقدس کے عین مطابق تھی۔ مگر بد قسمتی سے سید منور حسن صاحب کی معذرت مرکزی شوریٰ نے قبول نہ کر کے اور ارکان جماعت نے ان کی جگہ لالہ سراج الحق صاحب کو امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب کر کے جو جماعت میں نئی روایت قائم کی۔ اب اسی روایت کو ایک مرتبہ پھر دھرایا گیا ہے۔ مرکزی امیر جماعت کا منصب کوئی عام منصب نہیں اس کا تقدس بھی اس کے شایان شان ہر پل ہر لمحہ برقرار رہنا چاہیے۔ اسی طرح نو منتخب امیر جماعت کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مکمل نیک نیتی کے ساتھ استقامت کی دعا دینے کی اعلیٰ روایت کو جماعت اسلامی ترک کر کے روایتی عام جماعتوں کی طرح مبارکبادی پیغامات دینے کی روایت کو اپنا رہی ہے۔ جماعت کو اپنی انفرادیت قائم رکھنی چاہیے اور دوسروں کے رنگ میں رنگنے کے بجائے ان کو اپنے رنگ میں رنگنے کی ہی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ بہرحال آج ہمارے لالہ سراج الحق صاحب بہت خوش ہوں گے کیونکہ جماعت اسلامی کی قیادت پھولوں کی سیج نہیں ہوتی، امیر جماعت کا منصب کوئی عہدہ نہیں بلکہ ذمے داری ہوتی ہے۔ جو کسی بھی امیر جماعت کو چین سے سونے نہیں دیتی۔ امیر جماعت کو اپنا کاروبار، گھر بار، عزیز و اقارب، چین سکون سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ اس کی ترجیح اپنا مال و متاع، اپنی اولاد نہیں ہوتا بلکہ اسلامی نظام کے نفاذ کی جدو جہد میں اپنی زندگی وقف کرنی پڑتی ہے۔
دعا ہے کہ: اللہ تعالیٰ لالہ سراج الحق صاحب کی طرف سے اقامت دین کے لیے کی گئی تمام تر سعی اور جدوجہد کو اپنے دربار عالیہ میں قبول فرمائے اور حافظ نعیم الرحمن صاحب کو استقامت و صحت عطا فرمائے اور انہیں حقیقی معنوں میں سید مودودی کا جانشین بنائے۔ آمین