روح کا وضو

470

جس طرح وضو کرنے کے سے جسم کے اعضاء پاک و صاف ہوجاتے ہیں اسی طرح روزہ رکھنے سے ذہن و خیال کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے، برے خیال بیہودہ تمنائیں ہوا و ہوس کا میل کچیل نفس سے اتر جاتا ہے اور روح زیادہ سبک اور پاکیزہ ہوجاتی ہے اور پھر انسان خود غرض، مفاد پرست نہیں رہتا بلکہ دوسروں کا ہمدرد اور خیر خواہ بن جاتا ہے، اسی لیے روزہ روح کے لیے وضو کی حیثیت رکھتا ہے۔
کسی بھی قوم اور ملک میں معاشرتی عدل و توازن صرف اس صورت میں قائم رہ سکتا ہے جبکہ اس کے افراد ایک دوسرے کے حق میں ایثار مروت اور خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہوں اور اپنی اغراض پر دوسروں کی بھلائی کو ترجیح دیتے ہوں اسی لیے اللہ کے رسول اکرمؐ نے اسلام کی تعریف ایک نہایت ہی جامع لفظ سے فرمائی اور وہ لفظ ہے ’’خیر خواہی‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ دین نام ہے خیر خواہی کا۔ خیر خواہی اسلامی معاشرے کی اصل بنیاد ہے ایسے لوگ جو دوسروں کی تکلیف کا باعث بنتے تھے نبی اکرمؐ کو سخت ناپسند تھے ایک سفر میں ایک سایہ دار درخت کے نیچے کسی شخص نے غلاظت کردی تھی تپتے ہوئے صحرا میں سایہ بڑی نعمت ہے، اور کوئی شخص دور جانے کی زحمت گوارہ نہ کرے اور اس سایہ کو گندہ کردے تو وہ نہایت ہی بدتمیز اور خود غرض شخص ہوگا آپ نے ایسے آدمی کے لیے جو سایہ کے نیچے گندگی کرے جہنم کی وعید سنائی کہ ایسا خود غرض اور بدتمیز آدمی جنت میں رہنے کا مستحق نہیں بلکہ وہ جہنم میں رہنے کا قابل ہے، ظاہر ہے جنت نہایت اعلیٰ درجہ کی پاکیزہ معاشرت کا مقام ہے جنت کے انتہائی ترقی یافتہ اور متمدن معاشرہ میں خود غرض بد سلیقہ اور گنوار لوگ نہیں رہ سکتے جو دوسروں کی اذیت و تکلیف کا باعث بنیں۔
نبی اکرمؐ کے ارشادات کی اگر موضوعات کے لحاظ سے تقسیم کی جائے تو سب سے زیادہ حدیثیں حسن اخلاق اور حسن معاشرے کے متعلق ہی ملیں گی پھر آپؐ خود اخلاق حسنہ کا ایک زندہ نمونہ تھے دوسروں کے ساتھ محبت و خیر خواہی اور حسن اخلاق کے بارے میں آپؐ کے ارشادات ہمارے لیے درس عمل ہیں کیونکہ ہم مسلمانوں پر معاشرے میں ایک صاف ستھری پاکیزہ معاشرت کو رواج دینے کی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ان ذمے داریوں کو ادا کرنے کے پھر کچھ رہنما اصول ہیں،جو احادیث نبوی کہلاتے ہیں،آپؐ نے فرمایا:
o۔ تم میں کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (بخاری)
o۔ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ بھلی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔ (بخاری و مسلم)
o۔ جو اللہ اور یوم اخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے۔ (بخاری و مسلم)
o۔ ایک صحابی نے نبی کریمؐ سے نصیحت کے لیے درخواست کی آپؐ نے فرمایا: ’’غصہ نہ کیا کرو‘‘۔ (بخاری)
o۔ مومن وہ ہے جو کسی کو نقصان دیتا ہے نہ (نقصان) اٹھاتا ہے۔ (موطا)
o۔ ہر مسلمان پر مسلمان کا مال خون اور آبرو حرام ہے۔o۔ جس نے اپنے بھائی کی تکلیف رفع کی خدا آخرت میں اس کی تکلیف رفع کردے گا۔ (بخاری)
o۔ جس نے اپنے بھائی کی کوئی ضرورت پوری کی خدا قیامت کی ضرورتوں میں سے اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ (بخاری)
o۔ جس نے اپنے بھائی کا کوئی عیب چھپایا خدا اس کے عیب دنیا و آخرت میں چھپائے گا۔ (بخاری)
o۔ جب تک کوئی اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔ خدا اس کی مدد میں رہتا ہے۔ o۔ جو تجھ سے الگ ہو تو اس سے میل ملاپ کر اور جو تجھ سے برائی کرے تو اس سے بھلائی کر۔ (ترمذی)
o۔ کوئی چھوٹی بات تم کو نیکی سے نہ روکے۔ o۔ وہ مومن نہیں جس کے شر سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔ (مسلم)
o۔ تم آپس میں ٹوہ نہ لگائو حسد نہ کرو بغض نہ رکھو اور اے خدا کے بندوں بھائی بھائی بن جائو۔ (بخاری)
o۔ جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور بڑوں کی عزت نہ کی وہ ہم میں سے نہیں۔ (بخاری)
o۔ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں۔ (بخاری)