شوکت عزیز صدیقی اور چھے ججوں کا خط

605

اس وقت خفیہ ایجنسیوں کی عدلیہ کے امور میں مداخلت کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان کے نام اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے ججوں کا خط پورے ملک میں زیر بحث بنا ہوا ہے۔ آوازئہ حق بلند کرنے پر انہیں قومی ہیروز قرار دیا جارہا ہے۔ بلاشبہ اس آواز نے سناٹے کو توڑا ہے اور خفیہ ایجنسیوں کی قانون سے ماورا کارروائیاں ملک کے طول و عرض میں موضوع بحث بن گئی ہیں لیکن اس کہانی کے اصل ہیرو جسٹس شوکت عزیز صدیقی ہیں جنہوں نے منصب عدالت پر فائز ہونے کے دوران خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی ڈکٹیشن قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور برملا کہا تھا کہ وہ فیصلہ اپنے ضمیر کے مطابق کریں گے۔ اس وقت حکومت پی ٹی آئی کی تھی۔ عمران خان وزیراعظم تھے جن کی آئی ایس آئی چیف سے گاڑھی چھن رہی تھی۔ چناں چہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی اس ’’گستاخی‘‘ کے خلاف صدر عارف علوی کو ریفرنس بھیجا گیا اور انہوں نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے شوکت عزیز صدیقی کو ’’مِس کنڈکٹ‘‘ کے الزام میں برطرف کردیا۔ صدیقی صاحب نے ہار نہیں مانی، وہ اپنا کیس لے کر جوڈیشل کونسل کے پاس گئے کہ ججوں پر مشتمل یہی ادارہ ان کی فریاد سننے کا مجاز تھا اور بربنائے عہدہ چیف جسٹس آف پاکستان جوڈیشل کونسل کے سربراہ تھے لیکن اس وقت کے چیف جسٹس بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے۔ انہوں نے جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلانے کی زحمت ہی نہ کی جس میں صدیقی صاحب کی درخواست زیر سماعت آتی اور کوئی فیصلہ صادر ہوتا۔

اس دوران ملک میں کئی تبدیلیاں آئیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ لہراتے ہوئے طبی بنیادوں پر ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے اور لندن میں بیٹھ کر پاکستان کی سیاست میں دخل اندازی کررہے تھے۔ بلاشبہ انہیں اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار سے نکالا تھا اس لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے خلاف ان کا غصہ بجا تھا اور وہ لندن میں بیٹھ کر اس کا برملا اظہار بھی کررہے تھے لیکن منافقت ملاحظہ ہو کہ جب آرمی چیف جنرل باجوہ نے اپنی ملازمت میں دوسری بار توسیع کے لیے مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل کرنا چاہی تو نواز شریف نے مزاحمت کرنے کے بجائے ’’اوکے‘‘ کردیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کی تائید کے بغیر وہ سیاست نہیں کرسکتے۔ محترم شاہنواز فاروقی نے اپنے ایک حالیہ کالم ’’اسٹیبلشمنٹ کے کتے‘‘ میں ان کی سیاست کا خوب تجزیہ کیا ہے۔ اس سیاست کی بدولت وہ اب پھر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ خیر یہ باتیں تو ضمناً نوکِ قلم پر آگئیں۔ کہنا یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے سربراہ بھی کئی آئے اور گئے لیکن جوڈیشل کونسل میں شوکت عزیز صدیقی کا مقدمہ بدستور لٹکا رہا اور کوئی چیف جسٹس اس کی سماعت کرنے اور اس پر فیصلہ دینے کی جرأت نہ کرسکا۔ یہ کریڈٹ بہرکیف موجودہ چیف جسٹس محترم فائز عیسیٰ کو جاتا ہے کہ انہوں نے شوکت عزیز صدیقی کو ریلیف فراہم کیا ہے اور ان کی برطرفی غیر قانونی قرار دی ہے۔ صدیقی صاحب چونکہ بطور جج ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ گئے ہیں اس لیے ملازمت پر بحال نہیں ہوسکے لیکن انہیں ریٹائرڈ جج کی حیثیت سے تمام مراعات حاصل ہوں گی۔

اب ہم چھے ججوں کے خط کی طرف آتے ہیں۔ ان ججوں کو خفیہ ایجنسی کی مداخلت اور بلیک میلنگ کے خلاف خط لکھنے کی توفیق اس وقت ہوئی جب آگ ان کے دامن کو چھونے لگی۔ حالانکہ یہ جج صاحبان اپنے ہم منصب شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کے مقدمے کو مضبوط بناسکتے تھے۔ بے شک صدیقی صاحب کو ذاتی طور پر ریلیف مل گیا ہے لیکن ان کے الزامات بدستور تحقیق طلب ہیں اور ججوں کے خط نے ان الزامات کو مزید سنگین بنادیا ہے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس کا ردعمل بھی حوصلہ افزا نہیں۔ انہوں نے صدیقی صاحب کے الزامات پر کوئی پیش رفت نہیں کی اور ججوں کے خط کا معاملہ بھی حکومت پر چھوڑ دیا ہے۔ حالاں کہ یہ معاملہ حکومت کا نہیں عدالت کا تھا۔ انہیں وزیراعظم سے ملاقات کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ جو حکومت خود خفیہ ایجنسی کی الیکشن انجینئرنگ سے وجود میں آئی ہو وہ اس کے خلاف کیسے منصفانہ تحقیقات کراسکتی ہے۔ پی ٹی آئی نے حکومت کے قائم کردہ عدالتی کمیشن کو مسترد کردیا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں پی ٹی آئی کا دامن بھی داغدار ہے۔ وہ اپنے دور حکومت میں اس خفیہ ایجنسی کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کررہی تھی اور آج یہی حربہ اس کے خلاف استعمال ہورہا ہے تو وہ بلبلا رہی ہے لیکن خود کردہ را علاجے نیست
البتہ یہ بات قابل تعریف ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان اس ظالمانہ نظام کے خلاف ڈٹ گئے ہیں اور نواز شریف کے برعکس کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔